زیرِ حراست یا تفتیشی تحویل میں شہری کے حقوق

زیرِ حراست یا تفتیشی تحویل میں شہری کے حقوق !!!
عقیل انجم اعوان
پاکستان میں فوجداری انصاف کا نظام ہمیشہ سے بحث و تنقید کی زد میں رہا ہے کیونکہ یہاں زیرِ حراست افراد کے ساتھ ریاستی اداروں کا سلوک اکثر قانون اور آئین کی بنیادی روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ برسوں سے یہ مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ پولیس تھانوں، حوالاتوں اور خفیہ حراستی مراکز میں ملزمان نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہتے ہیں بلکہ انہیں تحقیر، بدسلوکی، ذہنی و جسمانی تشدد اور غیر انسانی سلوک یہاں تک کہ بعض صورتوں میں موت جیسے انجام سے بھی گزرنا پڑتا ہی۔ اس پس منظر میں حال ہی میں سینیٹ کی جانب سے منظور ہونے والا ’’ گرفتار شدہ، زیرِ حراست یا تفتیشی تحویل میں موجود افراد کے حقوق کا بل‘‘ پاکستان میں انسانی حقوق کی جدوجہد میں ایک اہم قدم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ قانون نہ صرف زیرِ حراست افراد کے حقوق کو واضح کرتا ہے بلکہ اُن ریاستی اداروں کی ذمہ داریوں کی بھی ازسرنو نشاندہی کرتا ہے جن کے ہاتھوں یہ حقوق پامال ہوتے رہے ہیں۔ یہ بل بنیادی طور پر آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 سے اخذ کیا گیا ہے جس میں انسانی عزتِ نفس کو ناقابلِ حرمت قرار دیا گیا ہے۔ آئین کی اس شق کا مقصد ہر شہری کو جسمانی اور ذہنی اذیت سے تحفظ فراہم کرنا ہے اور یہ اعلان کرنا ہے کہ ریاست کا کوئی ادارہ کسی فرد کو ذلت آمیز برتاؤ کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ اسی آئینی روح کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے یہ بل پیش کیا جو پاکستانی نظامِ انصاف میں ایک بڑی تبدیلی کا محرک بن سکتا ہے۔ پاکستان میں پہلے بھی تشدد اور حراستی موت کی روک تھام کے لیے قوانین موجود ہیں جن میں ٹارچر اینڈ کسٹوڈیئل ڈیتھ ( پریوینشن اینڈ پنشمنٹ) ایکٹ 2022سرفہرست ہے لیکن ان قوانین پر عمل درآمد ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ بل کو زیادہ جامع اور زیادہ عملی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ نہ صرف تشدد کی ممانعت کرتا ہے بلکہ زیرِ حراست افراد کو وہ تمام حقوق تفصیل سے فراہم کرتا ہے جو دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں ملزم کو حاصل ہوتے ہیں۔اس بل کے مطابق کسی بھی شخص کو حراست میں لیتے وقت سب سے بنیادی حق یہ ہے کہ اسے تحریری طور پر وجہِ گرفتاری سے آگاہ کیا جائے۔ پاکستان میں یہ عام روایت رہی ہے کہ پولیس کسی ملزم کو زبانی طور پر گرفتار کرتی ہے اس پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کر دیتی ہے اور کئی گھنٹوں تک اس کو نہ گھر والوں کے علم میں آنے دیتی ہے نہ اسے قانونی مشورے تک رسائی دیتی ہے۔ نئی قانون سازی کا مقصد اس طرز عمل کو قانوناً ناقابلِ قبول قرار دینا ہے۔ جب کسی کو تحریری طور پر بتایا جائے کہ وہ کس جرم میں گرفتار ہوا ہے تو نہ صرف اسے اپنی قانونی پوزیشن سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ پولیس بھی غیر ضروری اختیارات سے دور رہتی ہے۔اسی طرح ملزم کو اس کے گھر والوں اور اس کے وکیل تک فوری رسائی دینا بھی اب لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ یہ حق نہ صرف انسانی حقوق کا تقاضا ہے بلکہ شفاف تحقیقات کی بنیاد بھی ہے۔ جب کسی شخص کو تنہا، محرومی اور بے خبری کی حالت میں گرفتار رکھا جاتا ہے تو یہ صورتحال خود بخود اسے تشدد اور غیر انسانی سلوک کے خطرات سے گھیر لیتی ہے۔
گھر والوں اور وکیل کا باخبر رہنا ملزم کے لیے ایک قانونی اور اخلاقی ڈھال کا کردار ادا کرتا ہے۔ مزید یہ کہ اس بل میں صاف لکھا گیا ہے کہ گرفتار شخص کو لازماً چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ یہ شق آئینی طور پر پہلے بھی موجود تھی لیکن اس کی خلاف ورزی معمول کی بات رہی ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں جہاں افراد کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک پولیس کی تحویل میں رہے اور عدالت کو ان کی گرفتاری کا علم ہی نہ ہو سکا۔ اس قانون کا مقصد اس انتہائی خطرناک رویے پر قدغن لگانا ہے۔ پاکستان کے فوجداری نظام میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ زیرِ حراست افراد پر تشدد کا ہے جسے جرم ثابت کرنے کا ہتھیار سمجھ لیا گیا ہے۔ ماضی میں پولیس کی تربیت میں جدید سائنسی تحقیق، فرانزک ٹیکنالوجی اور ذہنی مہارتوں کا فقدان رہا جس کے نتیجے میں تفتیش تشدد اور دباؤ پر مبنی رہی۔ جب سزا اعترافِ جرم سے منسلک ہو اور اعتراف تشدد کے ذریعے لیا جائے تو نہ صرف ملزم کے حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ کئی بار بے گناہ افراد بھی اس غیر انسانی نظام کا شکار بن جاتے ہیں۔ نئے بل میں تشدد کی مکمل ممانعت کی گئی ہے اور ایسے اہل کاروں کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں جو تشدد یا حراستی موت کے ذمہ دار پائے جائیں۔ اس اقدام کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پولیس تشدد کے مقدمات میں سزا کا حصول انتہائی نایاب رہا ہے۔ زیرِ حراست افراد کے حقوق کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی نہایت اہم ہے کہ پولیس کو ملزم کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے اور آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے۔ اصولی طور پر پولیس پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی شخص کی عزتِ نفس کا احترام کرے۔ ملزم اگرچہ ایک زیرِ تفتیش شخص ہوتا ہے مگر اس کا انسانی مقام محفوظ ہوتا ہے۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ ملزم کی جسمانی اور ذہنی سلامتی کی حفاظت کرے اسے کسی بھی قسم کی ایذا رسانی سے محفوظ رکھے اور اس کی گرفتاری کے فوراً بعد اس کا طبی معائنہ کرائے تاکہ کسی بھی غیر قانونی سلوک کی صورت میں ثبوت محفوظ رہیں۔ اس کے علاوہ پولیس کو ملزم کو کھانا، پانی، آرام اور علاج جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنا قانوناً لازمی ہے۔ آئینِ پاکستان زیرِ حراست افراد کے حقوق کے لیے کئی مضبوط ضمانتیں فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 9شہری کی زندگی اور آزادی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 10گرفتاری کے بعد چوبیس گھنٹے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حق دیتا ہے آرٹیکل 14انسانی وقار اور جسمانی حرمت کو ناقابلِ پامالی قرار دیتا ہے، جبکہ آرٹیکل 10اے ہر شخص کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ آئین کی یہ خوبصورت ضمانتیں زمینی حقائق سے ٹکراتی نظر آتی ہیں کیونکہ پولیس اور دیگر اداروں میں وہ استعداد اور تربیت موجود نہیں جو ان حقوق کے عملی نفاذ کو یقینی بنا سکے۔ پاکستان میں جبری گمشدگیاں ایک الگ اور نہایت تکلیف دہ باب ہے۔ کئی دہائیوں سے شہریوں کے لاپتہ ہونے اور ان کے اہل خانہ کی بے بسی اور عدالتی دروازوں پر دھکے کھانے کی کہانیاں انسانی حقوق کی تاریخ کا تلخ حصہ بن چکی ہیں۔ اگر موجودہ قانون پر سختی سے عمل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کسی بھی شخص کو گرفتاری کے بعد فوراً عدالت میں پیش کرنے کی شق ان جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو نہایت حد تک محدود کر سکتی ہے۔ اگرچہ یہ قانون اپنی روح میں مکمل اور مضبوط ہے مگر اصل چیلنج اس کے عملی نفاذ کا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین کا موقف بالکل درست ہے کہ جب تک پولیس، جیل حکام، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے اہل کاروں کو اس قانون کے مندرجات سے آگاہ نہ کیا جائے اور انہیں تربیت نہ دی جائے تب تک کسی حقیقی تبدیلی کی امید رکھنا مشکل ہے۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک ایسا تربیتی نظام تشکیل دیں جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ بتایا جائے کہ زیرِ حراست افراد کے حقوق کیا ہیں آئین کی حدود کہاں شروع ہوتی ہیں اور ان حدود سے تجاوز کرنے پر انہیں کیا سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں۔ ملک کے فوجداری نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کی تفتیش کو تشدد کی جگہ جدید سائنسی بنیادوں پر منتقل کیا جائے۔ فرانزک لیبارٹریوں کی فعالیت، ڈیجیٹل شواہد کی جانچ، تربیت یافتہ تفتیشی افسران کی تعیناتی اور عدالتوں میں تیز رفتار پراسیس وہ اقدامات ہیں جو زیرِ حراست افراد کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ جرائم کے حقیقی تدارک میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔ اگر یہ اصلاحات واقعی نافذ ہو گئیں تو نہ صرف فردِ واحد محفوظ ہو گا بلکہ ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد بھی بحال ہو سکے گا۔ پاکستان کا مستقبل اس بات سے جڑا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ اگر شہری یہ محسوس کریں کہ گرفتاری ان کی عزتِ نفس اور جسمانی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ صرف ایک قانونی عمل ہے تو یہ احساس ہی انصاف کے پورے نظام کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ زیرِ حراست افراد کے حقوق کا تحفظ صرف ایک قانونی ضرورت نہیں بلکہ انسانیت کی بنیادی قدر ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک مہذب معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ یہ قانون اگر اپنی روح کے مطابق نافذ ہو جائے تو پاکستان نہ صرف عالمی برادری میں اپنی ساکھ بہتر بنا سکتا ہے بلکہ اپنے شہریوں کو وہ بنیادی تحفظ بھی فراہم کر سکتا ہے جو کسی بھی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔





