افغان ا ب مہمان نہیں

افغان ا ب مہمان نہیں
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے افغان پناہ گزینوں سے کیا خوب کہا ہے مہمان نوازی ختم اب وطن واپسی ہو گی۔ پاکستان اور اس کے عوام نے افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی کا جو صلہ پایا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ایک غریب ملک ہوتے ہوئے عشروں افغان مہاجرین کو بوجھ اٹھانے والے ملک کو محبت کی بجائے دہشت گردی کا تحفہ ملا جس کے لئے پاکستان کے عوام افغانوں کے شکر گزار ہیں۔ تعجب ہے اتنا کچھ کرنے کے باوجود افغان لوگ وطن واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے کچھ افغان جو روسی جارحیت کے وقت یہاں آئے اور سائیکل پر گلی گلی اور محلوں میں کپڑا بیچا کرتے تھے اربوں کی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ہمیں ابھی بھی یقین نہیں آرہا ہے ہماری حکومت ان غیر قانونی افغانوں کو ملک بدر کرنے میں سنجیدہ ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان پڑھ کر دکھ ہوا ہے کہ کے پی کی کی حکومت غیر قانونی افغانوں کو اب بھی گلے سے لگائے رکھنے کی خواہاں ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے جن لوگوں کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں پتہ نہیں کتنے فوجی شہید ہو چکے ہیں لوگوں کے گھر تباہ برباد ہو چکے ہیں، اس کے باوجود کے پی کے کی حکومت انہیں گلے سے لگائے رکھنا چاہتی ہے۔ ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کا کیمپ جہاں ستر ہزار سے زائد افغانی قیام پذیر تھے انہیں واپس بھیجا گیا ہے اور ان کا کیمپ مسمار کر دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے دور میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا حکومت سے اسی بات کا تنازعہ تھا افغان باشندوں کو بلوچستان سے واپس کیا جائے۔ میں سوشل میڈیا پر آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل کو سن رہا تھا وہ بتا رہے تھے جب افغان پناہ گزینوں کے قیام کی بات چلی تو جنرل فضل حق نے مہاجرین کو بارڈر ایریا میں کیمپ بنا کر ٹھہرانے کا مشورہ دیا تھا لیکن مہاجرین کی میزبانی کا اشتیاق رکھنے والے کرداروں نے انہیں کیمپوں میں رکھنے کی بجائے شہروں میں قیام کی اجازت دے دی۔اس وقت صورت حال یہ ہے غیر قانونی افغان پناہ گزیں یہاں سے جانے کو تیار نہیں ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اور اس کے گردونواح میں قائم افغانوں کی کچی بستیوں کو مسمار کر کے انہیں واپس بھیجا گیا ہے۔ دراصل یہ ہماری حکومتوں کا کیا دھرا ہے ایک بار واپس بھیجے جانے والے افغان بار بار یہاں آجاتے ہیں جو حکومتوں کی نااہلی کی بدترین مثال ہے۔
سعودی عرب سے جب کسی کو ڈی پورٹ کیا جاتا ہے اس کی واپسی کا سوال پیدا نہیں ہوتا وہ لوگ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں جب کہ ہم روپے پیسے کے لالچ میں کیا کچھ نہیں کرتے جو باعث شرم ہے۔ مجھے کوئی امریکہ ، برطانیہ اور سعودی عرب کا جعلی پاسپورٹ دکھا دے سوال پیدا نہیں ہوتا ہم بدقسمت لوگ ہیں جہاں کے اداروں میں کام کرنے والے بعض لوگ وطن اور ضمیر فروش ہیں۔ ہماری حکومت جعلی شناختی کارڈ بنانے والوں کے لئے عبرت ناک سزائوں کا قانون بنائے تو امید کی جا سکتی ہے کوئی جعلی شناختی کا سوچ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں کو اپنے مفادات کے لئے قانون سازی سے فرصت نہیں۔ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد اقتدار کو اپنے خاندان کا ورثہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کی دو سیاسی جماعتوں نے اصل میں اس ملک کا بیڑا غرق کیا ہے ورنہ وہ ایسے غیر قانونی اقدامات کے لئے قانون سازی کرتے تو کوئی جعلی شناختی کارڈ بنانے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ سعودی عرب کو امن کا گہوارہ کیوں کہا جاتا ہے، وہاں قانون اور اس پر عمل داری ہے، ہمارے ہاں قوانین بنتے ہیں عمل درآمد نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میرے ایک پڑوس میں ایک کرایہ دار رہتے ہیں ایک روز ان کا بچہ گھر سے باہر کھڑا تھا میں نے پوچھ لیا بیٹا ابو کیا کام کرتے ہیں، بولا کارپٹ کا کاروبار ہے۔ میرے سوال پر اس نے بتایا وہ افغان ہیں، لیکن ابو نے منع کر رکھا ہے کسی کو بتانا نہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے ہر شہر اور گلی محلے میں رہنے والے افغان شہریوں کے بارے میں ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں یہ بات لانی چاہیے تاکہ غیر قانونی افغانوں کا کسی طرح سے انخلاء ہو سکے ورنہ تو یہ لوگ کبھی ہمارے ملک سے واپس نہیں جائیں گے۔ پاکستان میں منشیات اور کلاشنکوف کا تحفہ ہمیں انہی سے ملا ہے ۔ منشیات کی فروخت میں افغانستان کا دنیا میں پہلا نمبر ہے جہاں سے افیون بلوچستان کے راستے ایران اسمگل ہوتی ہے ۔ بارڈر ایریا میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی ذمہ داری ہے، وہ افغانستان سے آنے والی منشیات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔ پاکستان کی سب سے بڑی غلطی جو افغان مہاجرین کو شہروں میں رہنے کی اجازت دے دی ورنہ یہ کیمپوں میں رہتی تو انہیں واپس کرنے میں جو مشکلات پیش آرہی ہیں نہیں آتیں۔ تعجب ہے ملک وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو شہید کرنے والا کون تھا وہ بھی افغانی سید اکبر تھا، لہذا افغانوں سے ہمیں کبھی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو روسی جارحیت کے وقت امریکہ کا اتحادی نہیں بننا چاہیے تھا ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نے باہم مل کر امریکہ کا مقابلہ کرکے اس افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا اب طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پاکستان کے حوالے کیسے کر سکتی ہے۔
پاکستان کی حکومت کو غیر قانونی افغانوں سے اب کسی قسم کی رو رعایت نہیں کرنی چاہیے، انہیں ہر صورت میں یہاں سے نکالنا چاہیے تاکہ ہمارے ملک کی معاشی اور امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکے۔ اگرچہ حکومت نے افغانستان سے تجارت بند کرنے کا فیصلہ تاخیر سے کیا ہے حکومت پاکستان کو اس فیصلے پر پوری طرح کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی افغانوں کو ملک بدر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے شہروں ، محلوں اور دیہاتوں میں حکومت افغان باشندوں کی نشاندہی کے لئے منادی کا بندوبست کرکے انہیں ملک واپس بھیجنے کا انتظام ہو نا چاہیے تاکہ ہمارا ملک افغانوں سے صاف ہو سکے۔





