ColumnZia Ul Haq Sarhadi

ٹریفک کا سنگین مسئلہ کب حل ہوگا؟

ٹریفک کا سنگین مسئلہ کب حل ہوگا؟
ضیاء الحق سرحدی
پشاور میں روز بروز ٹریفک مسائل میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے شہر بھر میں گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہر روڈ پر نظر آتی ہیں، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے اس کے باوجود آئے روز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے اس کی بڑی وجہ منظم ٹریفک پلاننگ کا نہ ہونا ہے اب تک سٹی ٹریفک پولیس کے اہتمام متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس میں ٹریفک قوانین کی بحالی کیلئے ہرممکن کوشش کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے لیکن ان کوششوں کے اب تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیںلہٰذا اس کیلئے سب سے پہلے حقیقی معنوں میں مربوط پلان بناتے ہوئے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور عوامی سطح پر ٹریفک قوانین کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے باقاعدہ مہم چلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ اس راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے جبکہ وطن عزیز میں ٹریفک کے مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ قریباً تمام ہی شہروں میں ٹریفک جام معمول بن چکا ہے۔ٹریفک قوانین کی پاسداری ہمارے عوام کرتے ہی نہیں۔ٹریفک پولیس اہلکار بھی اپنے فرائض سے کوتاہی برتتے ہیں،وہ اپنے چکروںمیں لگے رہتے ہیں، بھلے ہی ٹریفک غیر منظم طریقے سے رواں دواں رہے،اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور خیبر پختو نخوا کا سیاسی معاشی اور انتظامی مرکز ہونے کے باوجود ٹریفک کے شدید دباؤ بے ہنگم گاڑیوں اور ناقص حکومتی حکمت عملی کے باعث ایک ایسے بحران سے گزر رہا ہے جس نے شہریوں کی روز مرہ زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ شہر کے بڑے چورا ہے خصوصا ً ہشتنگری فردوس،خیبر بازار، شعبہ چوک،نمک منڈی ، ڈبگری ،جی ٹی روڈ، یونیورسٹی روڈ ، صدر، حیات آباداور کارخانو مارکیٹ کے علاقے روزانہ ٹریفک جام کا شکار رہتے ہیں۔ صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ سکول دفتر یا کاروبار پہنچنا شہریوں کے لیے ایک امتحان بن چکا ہے جبکہ حادثات کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ پشاور میں ٹریفک کے اس سنگین بحران کی سب سے بڑی وجہ بغیر پرمٹ رکشوں اور غیر رجسٹر ڈ ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی بھر مار ہے۔ ہزاروں رکشے بغیر نمبر پلیٹ اور قانونی دستاویزات کے شہر کی سڑکوں پر چل رہے ہیں جنہیں نہ تو ٹریفک پولیس باقاعدگی سے چیک کرتی ہے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ حکام ان کی نگرانی کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل رکھتے ہیں۔ یہی رکشے ٹریفک قوانین کی بدترین خلاف ورزیاں کرتے ہوئے نہ صرف جام کا باعث بنتے ہیں بلکہ حادثات کا ایک بڑا سبب بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ غلط پارکنگ، تجاوزات ، سڑکوں پر غیر ضروری دکانیں، ریڑھیاں بھی ٹریفک خلل کی بنیادی وجوہات ہیں۔ مسئلہ صرف یہی نہیں کہ سڑکیں بند ہوتی ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ شہری اداروں کے درمیان مکمل کوآرڈینیشن کا فقدان ہے۔ ٹریفک پولیس ایک طرف کارروائی کرتی ہے تو دوسری طرف متعلقہ محکمے تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتے یوں چند دن بعد صورتحال دوبارہ وہی ہو جاتی ہے۔پبلک ٹرانسپورٹ کا سسٹم بھی بدحالی کا شکار ہے۔ بی آرٹی اگر چہ ایک بڑی سہولت ثابت ہوئی ہے مگر شہر کے مضافات اور اندرونی علاقوں تک موثر ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجبوراً موٹر سائیکلوں اور رکشوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس تمام پس منظر میں شہریوں کا یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نیا ٹریفک پلان فوری طور پر نافذ کریں۔ یہ مطالبہ نہ صرف جائز ہے بلکہ وقت کی اہم ضرورت بھی۔ ایک جدید شہر کا تقاضا ہے کہ ٹریفک سسٹم مضبوط، منظم اور ڈیجیٹل بنیادوں پر چلایا جائے۔ اگر حکومت چاہے تو چند عملی اقدامات کے ذریعے موجودہ بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے بغیر پرمٹ رکشوں اور گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے۔ شہر میں صرف رجسٹر ڈ اور باقاعدہ فٹنس سرٹیفکیٹ رکھنے والے رکشوں کو چلنے کی اجازت ہو۔ ساتھ ہی ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ من مانی کرایہ اور ٹریفک خلاف ورزیاں قابو میں آئیں۔ دوسرا اہم اقدام غلط پارکنگ کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہونا چاہیے۔ بڑے بازاروں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے سامنے جدید پارکنگ پلازے تعمیر کیے جائیں۔ اس کے بغیر ٹریفک کبھی منظم نہیں ہو سکے گا۔ تیسرا قدم ٹریفک پولیس کی افرادی قوت اور جدید تربیت میں اضافہ ہے۔ اگر فورس محدود ہوگی تو بڑے شہر کی ٹریفک سنبھالنا ممکن نہیں۔ ساتھ ہی کیمرہ مانیٹرنگ ، ای چالان اور ڈیجیٹل کنٹرول روم جیسی جدید سہولتوں کی ضرورت ہے۔ چوتھا سڑکوں پر تجاوزات کے خلاف مستقل اور سخت مہم ہونی چاہیے نہ کہ چند دن کی کارروائی۔ جب تک سڑکیں صاف نہیں ہوں گی شہر سانس نہیں لے سکے گا۔ پانچواں جدید شہری منصوبہ بندی کے تحت نئے فلائی اوورز انڈر پاسز اور متبادل شاہراہیں وقت کی ضرورت ہیں۔ شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے مگر سٹرکیں وہی پرانی ہیں۔ پشاور اب ماضی کا چھوٹا شہر نہیں رہا۔ یہ ایک میٹرو پولیٹن شہر ہے جسے جدید ٹریفک سسٹم کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر فوری اقدامات نہ کر سکی تو آنے والے سالوں میں یہ مسئلہ شہریوں کی زندگی کو مزید مشکل بنادے گا۔ صوبائی دارالحکومت پشاور میں کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ درپیش آتا ہے جس کے باعث شہر کی ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور لوگ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں خجل وخوار ہو کر طے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اتوار کی چھٹی کے بعد کام کا پہلا دن عموماً ٹریفک رش کا ہوتا ہے۔ ٹریفک جام کا یہ عالم ہوتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر لوگ بروقت دفاتر پہنچ پاتے ہیں نہ طلباء اسکول، کالج اور یونیورسٹی یہاں تک کہ مریضوں کو بھی ٹریفک جام کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سنگین حالت سے دوچار بعض مریض ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینسوں میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ بے ہنگم اور بے ترتیب ٹریفک نے شہر کا حسن چھین لیا ہے۔ آپ شہر کی مرکزی شاہراہ کے ساتھ سروس روڈ اور کسی بھی لنک روڈ کی طرف چلے جائیں آپ کو ٹریفک کا دبائو اذیت ناک لمحات سے دو چار کر دے گا۔ مجھے دکھ اور حیرت ہوتی ہے جب ہم ٹریفک جام میں ایمبولینس یا ریسکیو 1122کی ایمرجنسی گاڑی کوپھنسا ہوا دیکھتے ہیں کوئی بھی اسے راستہ دینے تک کو تیار نہیں ہوتا۔ پولیس کی ناکہ بندیوں، غیر قانونی پارکنگ، تجاوزات اور بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے جبکہ ٹریفک پولیس کی جانب سے پشاور شہر میں روز ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے خدارا یہ تجربات بند کئے جائیں حیرانگی ہوتی ہی ٹریفک مینجمنٹ کی سوچ اور ان نت نئے تجربات پرعوام کو تکلیف ہی دینا کیوں پسند کرتے ہیں ان تجربات سے اور کیا ٹریفک پولیس میں تجربہ کار لوگوں کی کمی ہوگئی ہے جو ایسی مینجمنٹ آئی ہے جو نت نئے تجربے کر کے اپنا تجربہ بڑھا رہی ہے۔ حکام بالا کا فرض ہے اور خصوصی طور پر ڈی سی او، اے آئی جی ٹریفک، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکو چاہئے کہ وہ خود وقتا فوقتا جگہ جگہ اچانک چھاپے مار کراس کا سدباب کریںجبکہ یہ حیات آباد پشاور کی جدید بستی ہے اور جدید بستی کا یہ حال ہے۔اس ٹریفک کو باڑہ اچینی کے قدیمی فرنٹیئر روڈ پر ڈالا جائے اس طرح ان روٹوں کی ٹریفک سے شہر کی اندرونی سڑکیں محفوظ ہو جائینگی حکومت کو رنگ روڈ کی جانب بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ وہاں جگہ جگہ خود ساختہ ٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں کنٹینروں کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں۔ جرمانے کیلئے ٹکٹنگ کا نظام نافذ کیا جائے ،ڈرائیوروں کو ٹریفک قواعد کا پابند بنانے کیلئے پوائنٹس کا سسٹم رائج کیا جائے ۔ پشاور کے جدید ترین پوش علاقے حیات آباد کے علاقوں میں بھاری گاڑیوں کی آمدورفت کی وجہ سے روزانہ نا خوشگوار واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی اور آئی جی پی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید اور دیگر ٹریفک پولیس کے افسران اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دیں۔

جواب دیں

Back to top button