ColumnRoshan Lal

پنجاب ٹریفک قوانین میں ہوشربا ترامیم

پنجاب ٹریفک قوانین میں ہوشربا ترامیم
روشن لعل
مریم نواز کی حکومت پنجاب کا جاری کردہ ٹریفک رولز، ترمیمی آرڈیننس ، پورے صوبے میں نافذ کیا جا چکا ہے۔ اس ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں پر چالان، جرمانے اور قید کی سزائوں کا اطلاق ہوتے ہی نئے ٹریفک قوانین پر تحفظات ظاہر کرنے والوں کی ہا ہا کار سنائی دینے لگی ہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پاکستان کے اعداد و شمار یہ ہیں کہ سال 2019 کے دوران یہاں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوںکے ضمن میں ہمارا ملک عالمی سطح پر 48ویں اور ایشیا میں پہلے نمبر پر رہا۔ سال 2021کے دوران یہاں ٹریفک حادثات کے دوران 28000لوگ ہلاک ہوئے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کا شمار ان ملکوں میں کیا گیا جہاں ٹریفک قوانین اور گاڑیوں کی حد رفتار کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاںکی جاتی ہیں۔ پنجاب اگر ملک کا سب سے زیادہ آبادی اور سب سے زیادہ گاڑیاں رکھنے والے لوگوں کا صوبہ ہے تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ اسی صوبے میں ٹریفک قوانین کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوتی ہوں گی ۔ جس صوبہ میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کی صورتحال ممکنہ طور پر انتہائی غیر تسلی بخش ہو ، وہاں اگر 60برس قبل نافذ کیے گئے ٹریفک قوانین میں ترمیم کی گئی ہے تو اس عمل کو کسی صورت بھی غیر ضروری نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں، اگر کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ یہاں ٹریفک کی تشویشناک صورتحال کے باوجود سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی ہیت اور نفاذ کو کئی دہائیوں تک جوں کا توں رکھنے کے بعد کس مقصد کے تحت آنا ً فاناً من مانی ترامیم کرتے ہوئے تبدیل کر دیا گیا تو اس سوال کو بلا جواز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ جس جماعت اور خاندان کی پنجاب پر حکومت ہے اس کے لوگوں نے صوبے میں اپنا ووٹ بینک مستحکم رکھنے کے لیے جان بوجھ کر سال ہا سال تک نہ صرف خود تبدیل شدہ وقت کے مطابق ضروری قانون سازی کرنے سے احتراز کیا بلکہ اگر دوسروں نے پرانے قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تو ان کے آگے بھی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ایسا ہونے کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ان لوگوں نے پنجاب کے تاجر طبقہ کو اپنا ووٹ بینک سمجھتے ہوئے اسے طویل عرصہ تک انکم ٹیکس کے خود تشخیصی گوشوارے جمع کرانے کی سہولت دی۔ جو کوتاہی ٹیکس کے نظام میں بروقت اصلاحات کرنے سے احتراز کرتے ہوئے کی گئی اسی کا ارتکاب یہاں پہلے سے موجود ٹریفک قوانین کو بروقت تبدیل نہ کرکے کیا گیا۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ صرف پنجاب نہیں بلکہ تمام تر پاکستان میں ادارہ جاتی طاقت، اختیارات، سیاسی رابطوں، تعلقات، اثر و رسوخ اور مالی آسودگی کے حامل لوگ ایک عرصہ تک ٹریفک قوانین کو اپنا استحقاق سمجھ کر پامال کرتے رہے۔ برس ہا برس تک یہاں ٹریفک قوانین صرف ان لاوارث لوگوں پر لاگو کیے گئے جن کے پاس موقع پر ٹریفک پولیس کے ساتھ مک مکا کرنے کے لیے مال یا پھر ہمت نہیں تھی۔ سیاسی اثر و رسوخ اور مالی آسودگی کی بنیاد پر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے کا کلچر یہاں ضیا دور میں پروان چڑھنا شروع ہوا اور اس کے بعد ضیا کی نرسری میں تیار ہونے والے سیاستدانوں کے طویل عرصہ تک حکمران رہنے کے دوران مستحکم ہوا۔ جس سیاسی جماعت اور خاندان کے لوگ ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے کا کلچر پیدا اور مستحکم کرنے کے ذمہ دار ہیں اگر وہی لوگ اس کلچر کو ختم کر رہے ہیں تو’’ دیر آید درست آید‘‘ کہاوت کو درست مانتے ہوئے اس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔ قوانین چاہے ٹریفک کے ہوں یا کسی دوسرے شعبے کے ، ان کی تشکیل اور نفاذ کے دوران مفاد عامہ اور عدل و انصاف کی فراہمی کی علاوہ کچھ اور نظر نہیں آنا چاہیے۔ اگر کسی نئے یا ترمیم شدہ قانون میں انصاف کی بجائے ظلم کا پہلو موجود ہونے کی نشاندہی کی گئی ہو تو ایسی قانون سازی کو آنکھیں بند کر کے مفاد عامہ میں کیا گیا عمل قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے مریم نواز کی پنجاب حکومت نے ٹریفک قوانین میں جو ترامیم کی ہیں ان میں ناقدوں کو انصاف سے زیادہ ظلم کا پہلو اس لیے نمایاں نظر آرہا ہے کیونکہ نئی ترامیم صوبے کے ریونیو میں اضافہ کے لیے استعمال ہوتی محسوس ہو رہی ہیں۔
فلسفہ انصاف کے تحت قانون سازی کے اصول طے کرتے وقت جرائم کو جن مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا وہ سنگین جرم ، نیم سنگین جرم اور غیر سنگین جرم وغیرہ ہیں۔ قتل اور ڈکیتی کی واداتیں سنگین جرموں کی فہرست میں آتی ہیں جن کی سزا موت یا عمرقید ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد جسمانی نقصان، جائیداد پر ناجائز قبضہ، غبن اور مالی و انسانی سمگلنگ وغیرہ کو نیم سنگین جرم قرار دیا گیا ہے، جن کی سزا عمر قید سے کم اور ایک سال سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ جرائم کی تیسری قسم قوانین کی ایسی خلاف ورزیاں ہیں جس سے کسی فرد کو ذاتی نقصان پہنچنے کی بجائے مفاد عامہ پر حرف آئے۔ ایسے جرموں کو غیر سنگین جرائم کہا جاتا ہے اور ان کی سزا صرف جرمانوں تک محدود رکھی جاتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی مد میں ہونے والی تقریباً 90فیصد خلاف ورزیوں ( حد رفتار سے تیز گاڑی چلانا اور سگنل کی خلاف ورزی وغیرہ) کو غیر سنگین جرائم میں شمار کیا جاتاہے۔ نشے کی حالت یا لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کو نیم سنگین جرم جبکہ ٹریفک حادثہ کی صورت میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کو غفلت کے مرتکب ڈرائیور کا سنگین جرم مانا جاتا ہے۔ جس طرح کسی ٹریفک حادثہ میں ہلاکت کے باوجود ڈرائیور کو پھانسی کا سزاوار قرار نہیں دیا جاتا اسی طرح ڈرائیونگ کے دوران سرزد ہونے والے نیم سنگین یا غیر سنگین جرائم کی سزا دیگر شعبوں میں کیے گئے جرموں کی سزا سے کم ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت کی طرف سے عام ڈرائیوروں اور خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں کے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں جیسے غیر سنگین جرائم پر قید اور بھاری جرمانے عائد کرنے کی سزا کو کسی طرح بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ لگ ایسے رہا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی جیسے غیر سنگین جرائم پر بھاری جرمانے اور قید کی سزا مقرر کرنے والی پنجاب حکومت ہی نہیں بلکہ ان قوانین کو جائز سمجھنے والی جوڈیشری کو بھی فلسفہ قانون (jurisprudence)کی الف ب کا علم نہیں ہے۔
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے جو جرائم غیر سنگین ہیں ان کی سزا قید اور بھاری جرمانہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ جرمانہ کی رقم طے کرتے وقت یہ بات ضرور مد نظر رکھی جانی چاہیے تھی کہ جس صوبے میں حکومت نے مزدور کی روزانہ اجرت 1538روپے اور ماہانہ 40000روپے مقرر کر رکھی ہے، وہاں خاص طور پر کسی موٹر سائیکل سوار کے معمولی جرم کی سزا اتنا بھاری جرمانہ قطعاً نہ ہو کہ پہلے سے بجلی اور گیس کی ناقابل جواز قیمتوں کی وجہ سے معاشی استحصال کا شکار اس کا پورا خاندان اس کی سزا میں شریک محسوس ہونے لگے۔ اگر ترمیم شدہ قوانین کے مطابق بھاری جرمانوں کی شرح جوں کی توں رکھی گئی تو یہ تصور درست ثابت ہو جائے گا کہ حکومت پنجاب نے بھی بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعے خزانہ بھرنے والی وفاقی حکومت کی طرح صرف ریونیو بٹورنے کے لیے ٹریفک قوانین میں ہوشربا ترامیم کی ہیں۔

جواب دیں

Back to top button