ایف آئی اے کا ’’ انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم

ایف آئی اے کا ’’ انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم‘‘
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پاکستان کے بین الاقوامی ہوائی اڈوں کے ڈیپارچر لائونجز، جو کبھی امیدوں، دعائوں اور نئے مستقبل کی نوید سنانے والی جگہیں ہوا کرتی تھیں، آج کل ایک عجیب سی بے یقینی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس گھمبیر صورتحال کی تہیں محض جذباتی نہیں ہیں بلکہ یہ معاملہ بین الاقوامی، جیوسٹریٹیجک دبائو، اور ہمارے اپنے اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں تک جاتا ہے کیونکہ یہ کہانی صرف ایک مسافر کی نہیں، بلکہ اس نظام کی ہے جو ایک طرف تو انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کو پھلنے پھولنے دیتا ہے، جس کی بنیادی جڑیں یونان کے ساحل پائلوس کے قریب ہونے والے کشتی حادثے اور دسمبر 2024ء کے واقعات میں پیوست ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بحیرہ روم، جو صدیوں سے تجارت اور تہذیبوں کے ملاپ کا راستہ رہا ہے، اب پاکستانی نوجوانوں کا قبرستان بن چکا ہے جہاں سیکڑوں پاکستانیوں کی ہلاکت کے بعد ریاست کا ردعمل روایتی اور ہنگامی نوعیت کا تھا جس میں انسانی سمگلروں کے خلاف منظم کارروائی کے بجائے سارا دبائو ایگزٹ پوائنٹس یعنی ہوائی اڈوں پر ڈال دیا گیا۔
عالمی دبائو کے نتیجے میں ایک ایسی پالیسی ترتیب دی گئی جس نے ’’ احتیاط‘‘ کو ایک غیرعلانیہ ’’ سائلنٹ بین‘‘ نافذ کر دیا گیا جس کے تحت عملی طور پر ہر وہ نوجوان جو 15سے 40سال کی عمر کا ہو، جس کا تعلق گجرات، منڈی بہائوالدین، سیالکوٹ، یا گوجرانوالہ سے ہو، اور جو پہلی بار سفر کر رہا ہو، وہ ایف آئی اے کی نظر میں مشکوک ٹھہرایا گیا ہے حالانکہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے حالیہ بیانات میں واضح کیا کہ مکمل دستاویزات رکھنے والوں کو نہیں روکا جائے گا لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ایئرپورٹس پر ’’ کلاس پروفائلنگ‘‘ عروج پر ہے ۔
اس بحران کا ایک انتہائی اہم اور تاریک پہلو، جسے اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ افغان شہریوں کا پاکستانی شناخت اور پاسپورٹ کا استعمال ہے جس نے ہمارے سبز پاسپورٹ کی رہی سہی ساکھ کو بھی تباہ کر دیا ہے کیونکہ تحقیقات سے یہ ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں کہ نادرا کے سسٹم میں نقب لگا کر تقریباً ڈھائی لاکھ (250000)جعلی شناختی کارڈ جاری کیے گئے جن کی بنیاد پر افغان شہریوں نے پاکستانی پاسپورٹ بنوائے اور جب یہ افراد بیرونِ ملک غیر قانونی سرگرمیوں یا انسانی سمگلنگ میں ملوث پائے گئے تو بدنامی پاکستان کے حصے میں آئی۔ ایف آئی اے نے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کریک ڈان کرتے ہوئے ایسے نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا جو افغانوں کو پاکستانی پاسپورٹ پر سعودی عرب اور یورپ بھجوا رہے تھے، لیکن اس جعل سازی کا خمیازہ اب عام پاکستانی مسافر کو بھگتنا پڑ رہا ہے جسے ہر امیگریشن کائونٹر پر مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ریاستی اداروں کی ناک کے نیچے اتنے بڑے پیمانے پر شناختی چوری کیسے ممکن ہوئی؟
دوسری جانب اگر ہم ادارے کے اندرونی احتساب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایف آئی اے خود بھی کالی بھیڑوں سے پاک نہیں ہے، جس کا ثبوت 2024اور 2025میں ہونے والی وہ انکوائریز ہیں جن کے نتیجے میں متعدد افسران کو سزائیں دی گئیں، یونان کشتی حادثے میں غفلت برتنے اور انسانی سمگلرز کی سہولت کاری کے الزام میں کراچی، ملتان اور فیصل آباد ایئر پورٹس پر تعینات ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کو نوکریوں سے برخاست یا تنزلی کا سامنا کرنا پڑا جو اس امر کا اعتراف ہے کہ نظام میں سوراخ موجود ہیں اور انسانی سمگلرز کی ’’ ریڈ بک 2025‘‘ میں گوجرانوالہ ریجن کے 70سے زائد مطلوب ملزمان کا شامل ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ وسطی پنجاب انسانی سمگلنگ کا گڑھ بن چکا ہے جہاں بااثر مافیاز سرکاری سرپرستی کے بغیر اتنا عرصہ کام نہیں کر سکتے تھے۔
شینگن ممالک (Schengen Countries)کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے ویزا مسترد ہونے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ( تقریباً 50فیصد) ہو چکی ہے اور ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کمزور ترین ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر کھڑا ہے جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جب قانونی راستے بند ہوتے ہیں یا مشکل بنا دئیے جاتے ہیں تو مایوس نوجوان ’’ ڈنکی‘‘ یا غیر قانونی راستوں کا رخ کرتے ہیں، اور یورپی ممالک کا یہ رویہ کہ معاشی عدم استحکام کے خوف سے ویزے مسترد کیے جائیں، دراصل انسانی سمگلروں کے کاروبار کو مزید چمکا رہا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024ء میں 80000سے زائد درخواستوں میں سے نصف مسترد کر دی گئیں۔
قانونی اور آئینی تناظر میں دیکھا جائے تو سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں، جیسے کہ جبران ناصر کیس، میں عدالتوں نے واضح کیا ہے کہ شہریوں کو بلا جواز اور بغیر کسی تحریری حکم نامے کے آف لوڈ کرنا غیر قانونی ہے، لیکن ایف آئی اے کا ’’ انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم‘‘(IBMS)اور ’’ رسک انالسز یونٹ‘‘ اب ٹیکنالوجی اور الگورتھم کے ذریعے ’’ ڈیجیٹل پروفائلنگ‘‘ کر رہا ہے جہاں سسٹم میں فیڈ کیے گئے پیرامیٹرز ( جیسے عمر، علاقہ، پہلی بار سفر) کی بنیاد پر کسی بھی جائز مسافر کو ’’ ہائی رسک‘‘ قرار دے دیا جاتا ہے۔
اس بحران کے سماجی اور معاشی اثرات انتہائی گہرے ہیں کیونکہ جب گجرات، سیالکوٹ اور جہلم جیسے اضلاع، جو ’’ منی آرڈر اکانومی‘‘ کا مرکز ہیں۔ کاروباری طبقے کا یہ احتجاج بجا ہے کہ اگر بزنس مین اور ہنرمند باہر نہیں جائیں گے تو ملک میں ڈالر کیسے آئے گا؟ اس ’’ برین ڈرین‘‘ اور مایوسی کے عالم میں ریاست کو چاہیے کہ وہ دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل تعمیر کرے اور مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرے جس کے لیے سب سی پہلے ایف آئی اے کے نظام میں شفافیت لانا ہوگی، ہر آف لوڈ کیے گئے مسافر کو تحریری وجہ فراہم کرنا لازمی قرار دیا جائے، اور ایئر پورٹس پر مسافروں کو روکنے کے بجائے انٹیلی جنس کی بنیاد پر ان ایجنٹوں اور نیٹ ورکس کو توڑا جائے جو گلی محلوں میں بیٹھ کر موت کا سودا کر رہے ہیں۔ مزید برآں، نادرا کے نظام کی تطہیر اور افغان شہریوں کے جعلی دستاویزات کا مکمل خاتمہ ناگزیر ہے تاکہ پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ بحال ہو سکے اور ہمارے شہری دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ اگر ہم نے اپنے گھر کو ٹھیک نہ کیا، کرپشن کے ناسور کو ختم نہ کیا اور قانونی راستے فراہم نہ کئے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسی قید میں دھکیل دیں گے جہاں سے فرار کا ہر راستہ موت کی وادی سے ہو کر گزرتا ہے۔





