پتنگ بازی کی مشروط اجازت ۔ پنجابیوں کا امتحان

پتنگ بازی کی مشروط اجازت ۔ پنجابیوں کا امتحان
تحریر: رفیع صحرائی
پنجاب حکومت نے صوبے میں پتنگ بازی کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ یہ اجازت دراصل برسوں سے دم توڑتی اس ثقافت کو نئی زندگی دینے کی کوشش ہے۔ بسنت کبھی لاہور کی پہچان، پنجاب کی روح اور لوگوں کی اجتماعی خوشیوں کا نام تھی۔ اس تہوار کی بندش نے نہ صرف ایک صنعت کو برباد کیا بلکہ ہزاروں خاندان بھی بے روزگار ہوئے۔ اب یہ مشروط اجازت دی گئی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ لوگوں کی خوشیوں کی واپسی کا باعث بنے گا یا ایک بار پھر خطرات جنم لے سکتے ہیں؟
آغاز میں پنجاب میں پتنگ بازی موسمِ بہار میں ایک تہوار منا کر کی جاتی تھی۔ بسنت کا تہوار پہلے پہل مادھو لعل حسین کے مزار اور میلے تک ہی محدود تھا۔ پھر اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا اور یہ لاہور سے نکل کر دیگر شہروں میں بھی پھیل گیا۔ قصور شہر میں بسنت کا تہوار بہت بڑا فیسٹیول بن گیا تھا جہاں ہر سال 19فروری کو بسنت بڑے تزک و احتشام سے منائی جاتی۔ اس کے بعد پنجاب کے ہر بڑے چھوٹے شہر اور قصبے میں پھیل کر بسنت نے قومی تہوار کی شکل اختیار کر لی۔ البتہ ہر شہر میں بسنت الگ الگ تاریخوں میں منائی جاتی۔ دن کے علاوہ رات کے وقت بیم لائٹوں کی مدد سے فضا بقعہ نور بنی ہوتی۔ اونچی آواز سے موسیقی کے سُر بکھرے ہوتے۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، مرد و خواتین سبھی بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کے کھیل میں دلچسپی سے حصہ لیتے۔ جونہی کوئی پتنگ کٹتی فضا بو کاٹا کے فلک شگاف شور سے بھر جاتی۔ ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا۔ بسنت کے موقع پر خصوصی پکوان پکائے جاتے۔ ایک طرح سے اس تہوار کے ذریعے زندگی کی تلخیوں اور مصائب کا کتھارسس ہو جاتا تھا۔ ہر طرف رنگ و نور اور خوشبوئیں بکھیر کر ان میں سے خوشیاں کشید کی جاتی تھیں۔
پھر ہمارے عمومی رویّوں نے اس کھیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سپورٹس مین سپرٹ کی جگہ انا، ضد اور تکبر نے لے لی۔ اپنی پتنگ کٹوانا سبکی اور توہین سمجھا جانے لگا۔ پتنگ بازی میں مہارت کی جگہ ناجائز ذرائع کا استعمال کر کے جیت ہی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا۔ پہلے پہل پتنگ اڑانے والی ڈور پر سریش اور کانچ کی تہہ چڑھا کر اسے تیز کیے جانے سے اس کا آغاز ہوا۔ اسے مانجھا لگانا کہتے تھے۔ یہ ڈور تلوار کی طرح تیز ہوتی تھی۔ ہاتھوں اور گردن کو زخمی کر دیتی تھی مگر بہر حال پیچ لڑاتے وقت کٹ بھی جاتی تھی۔ انا کی مکمل طور پر تسکین نہ ہوتی تھی چنانچہ مانجھے والی ڈور کی جگہ دھاتی ڈور نے لے لی اور یوں ایک تفریحی کھیل خونیں کھیل میں تبدیل ہو گیا۔ دھاتی ڈور بجلی کی تاروں سے ٹکرا کر نہ صرف الیکٹرک شاک کا باعث بننے لگی بلکہ بجلی کے بریک ڈائون کا سبب بھی بننے لگی۔ ٹرانسفارمر جلنے لگے۔ دھاتی ڈور نے قاتل ڈور کا روپ اختیار کر لیا۔ راہ گیروں خصوصاً موٹر سائیکل سواروں کے گلے کٹنے لگے اور مجبوراً حکومت کو پتنگ بازی پر پابندی لگانی پڑی۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ لاہوریوں نے پابندی کے باوجود پتنگیں بھی اڑائیں اور دھاتی ڈور سے موٹر سائیکل سواروں کے گلے بھی کاٹے۔ رواں سال جولائی میں حکومت پنجاب اور آئی جی پولیس نے پتنگ بازی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ سالِ رواں 2025ء کے پہلے چھ ماہ کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جون 2025ء تک لاہور سمیت صوبہ بھر میں انسداد پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 4425 ملزمان گرفتار اور4341 مقدمات درج کیے گئے۔ 4 لاکھ 69 ہزار 892 پتنگیں اور 17 ہزار 671 چرخیاں برآمد کی گئیں جبکہ3871 کیسز کے چالان جمع کروائے گئے۔
صرف صوبائی دارالحکومت لاہور میں 1206 ملزمان گرفتار، 1175 مقدمات درج، 27612 پتنگیں اور 1393 ڈور چرخیاں برآمد کی گئیں۔ ان ہوشربا اعداد و شمار کے بعد ماہ جولائی میں پتنگ بازوں، پتنگ فروشوں اور پتنگ سازوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کیا گیا اور پنجاب پولیس کی جانب سے پتنگ بازی ممانعت ترمیمی بل کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی۔
اب کئی سال کی بندش کے بعد پنجاب حکومت نے اپنے شہریوں کو ایک موقع دیا ہے کہ وہ اپنے ذمہ دارانہ رویّے سے پتنگ بازی کی دم توڑتی صنعت کے احیاء میں اپنا کردار ادا کریں۔ اگر پنجابیوں نے تفریح کو خونیں کھیل میں بدلنے سے احتراز کرتے ہوئے اسے لطف لینے تک محدود رکھا تو اس سے نہ صرف پتنگ بازی کے روایتی کھیل کو نئی زندگی مل جائے گی بلکہ ایک پوری صنعت بحال ہو جائے گی۔ پتنگ سازی، گُڈّی گری، ڈور تیار کرنے والے، بانس فروش، رنگ ساز اور اس سے منسلک درجنوں چھوٹی فیکٹریاں جو برسوں سے بند تھیں دوبارہ چل پڑیں گی جس سے ہزاروں خاندانوں کا چولہا جل سکتا ہے۔ بسنت کے دنوں میں ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، فوڈ کارنرز، فوٹو گرافی اور ثقافتی و سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ سے چھوٹے دکاندار، دیہاڑی دار مزدور اور دستکار براہِ راست فائدہ اٹھا سکیں گے۔ عوام کو صحت مند تفریح مہیا ہو گی۔ مثبت معاشرتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا۔
اگر اس موقع کا فائدہ نہ اٹھایا گیا اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر دھاتی ڈور کا استعمال پتنگ بازوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے جان لیوا ثابت ہو گا۔ اسلحہ کی نمائش اور ہوائی فائرنگ بد امنی اور خوف و ہراس پھیلانے کا باعث بنے گی۔ شور اور اونچی آواز سے موسیقی نہ صرف لوگوں کی نیند خراب کرے گی بلکہ بیماروں، بزرگوں اور طالب علموں کے لیے اذیت کا سبب بھی بنے گی۔ چھتوں سے گر کر ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ ٹریفک حادثات میں اضافہ کے امکانات ہیں۔ بجلی کا بار بار ٹرپنگ سے بھاری نقصان ہونے کا خدشہ ہو گا۔ بڑے اجتماعات میں سیکورٹی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے پنجاب سرکار کے متعین کردہ ایس او پیز کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ پتنگ بازی کی جائے گی تو یہ ایک صحت مند سرگرمی بن جائے گی۔ اگر شرائط و ضوابط کو مدِنظر نہ رکھا گیا تو ایک بار پھر حادثات، اور اموات کی دلخراش خبریں صحت مند تہوار کی روح کو داغدار کر دیں گی۔
تہوار اور تفریح خوشیوں کا نام ہے مگر یہ خوشیاں تب ہی پھیلتی ہیں جب احتیاط، قانون اور ذمہ داری اس کا حصہ بن جائے۔ اب یہ پنجاب کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس اجازت سے اپنے ذمہ دارانہ رویّے کے ساتھ خوشیاں کشید کرتے ہیں یا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تفریحی سرگرمی کو دوبارہ پابندی کی زد میں لانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پنجابیوں کا امتحان ہے۔




