Column

آزادی کا سفر، سیاست نہیں ریاست

 

طارق خان ترین

پاکستان کا مطلب کیا لا لہ لا اللہ کے نعروں سے گونجتی ہوئی آوازیں، جب تہذیبوں کے ٹکرائو نے حضرت انسان کو اس بات پر مجبور کیا کہ الگ الگ تہذیبوں کے مالک، اپنے لئے ایک الگ مملکت کا انتخاب کرے تو اکابرین ہند نے مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کو دیکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ اسلام ہندو مذہب کے برخلاف مذہب ہے، اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے دو قوموں کیلئے ناگزیر ہے کہ اپنے لئے الگ مملکت منتخب کریں۔ چنانچہ مسلمانان ہند نے اپنے اکابرین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان سے اپنے الحاق کا اعلان کیا۔ یہ ایک طویل جدوجہد کا نام ہے، مسلمانان ہند کی نظریاتی، ثقافتی اور جداگانہ شناخت کے حصول کیلئے جوان، بزرگ، بچے، مرد اور عورت یعنی ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے بے بہا قربانیاں دیں جس کی بنا پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔
یہ 1857ء سے پہلے کے لمحات تھے کہ جب برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت تھی اور مغلوں کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں نے یہاں قبضہ کرلیا۔ انگریزوں نے ہر جگہ اپنا تسلط قائم کیا۔ اس تسلط کے بعد برصغیر کی تمام قومیں تقسیم در تقسیم ہوگئیں اور مایوسیوں کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی تھیں، جیسے آزادی کا خواب اب ایک پرچھائیں سا بن چکا ہو۔ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، ایک ایسا تعلیمی نظام بنایا گیا جس سے مسلمان بچے عصری تعلیم سے دور رکھے گئے، روزگار کے مواقع ناپید رکھے گئے، انسان کو انسان سے تشبیہ نہ دی گئی یہاں تک کہ مسلمانوں کے ساتھ بعید از سوچ سماجی، معاشرتی، معاشی اور علمی زیادتیاں کی گئیں۔ دین اسلام کیخلاف مختلف تحریکیں چلائی گئیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور اسلاف کے کارہائے نمایاں کو مسخ کرنے کی مضموم کوششیں کی گئیں۔
انگریزوں کے آنے سے برصغیر کے ہندوئوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کیونکہ ان سے پہلے ان پر مسلمانوں کی حکومت تھی جس کی بنا پر ہندو اس کوشش میں تھے کہ برصغیر اور خاص طور پر وہاں کے مسلمانوں پر انگریزوں کے ساتھ ملکر حکمرانی کی جاسکے، جس کی بنا پر ہندوئوں نے انگریزوں کے ساتھ ملکر اسلام اور مسلمانوں کیخلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے شروع کئے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہندو انگریزوں کو نکال کر خود حکمرانی کے خواب دیکھنے لگے اور موقع کی تلاش میں ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں پر کیچڑ اچھالتے، انگریزوں کو مسلمانوں کیخلاف بھڑکاتے اور مسلمانوں کو انگریزوں کیخلاف تاکہ کسی طرح سے ان دونوں کو انگیج رکھ کر خود فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر کفر اپنی چالیں چلائے اور میرے اللہ کی چالوں کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
مسلمانان برصغیر جدھر دیکھتے تاریکیوں اور مایوسیوں کے سوا کچھ نہ دیکھتے، ہر طرف سے بے سکونی اور بے سر و سامانی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مایوسیوں کے بادل کو مٹانے کیلئے، قوم کی ان مایوسیوں کو ایک نئے عزم و استقلال میں بدلنے کیلئے اس قوم میں بہادر رہنما بھیجا، جس نے اسلام کے تحفظ کو مسلمانوں کی بیداری کو اپنا وتیرہ بناکر آزادی حاصل کرنے کیلئے سورج کی طرح عیاں کوششیں شروع کر دیں۔ ان رہنمائوں میں مولانا شبلی نعمانی، ظفر علی خان، چودھری رحمت علی، علامہ محمد اقبال وہ دیگر شامل رہیں۔ علامہ محمد اقبال ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھا، نہ صرف خواب بلکہ اس خواب کو تعبیر فراہم کرنے کیلئے عملی جدوجہد بھی کی۔ انہوں نے خود بھی محنت کی اور مسلمانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ بھی پیدا کیا۔ سن 1930الہ آباد میں ہونے والی کانفرنس میں علامہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا جنہیں بے حد پذیرائی ملی اور مسلمانان ہند نے اجتماعی طور پر اس کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کردی۔
مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس مارچ 1940ء میں ہوا جس میں قائداعظم نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اس اجلاس کی صدارت بھی کی۔ قرارداد پاکستان سے تو عوام واقف ہی ہیں، اس قرارداد کو اسی اجلاس میں پیش کیا گیا جنہیں منظور کیا گیا۔ قرارداد کے حصول کیلئے دیگر علاقوں کے مسلمانوں نے بھی اپنی ناقابل تسخیر جدوجہد شروع کی۔ یہ وہ جدوجہد تھی جسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور کرہ ارض پر ایک نیا ملک، ایک نئی مگر برتر تہذیب نظریہ اسلام کو وجود بخشا گیا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا لہ لا اللہ کا نظام دنیا کو دینا، ایک بہترین تہذیبی، معاشرتی اور معاشی نظام نہ صرف اپنے آپ میں لانا تھا بلکہ دنیا میں ناچاقیوں کا خاتمہ کرنا، دنیا کو امن و خوشحالی کی طرف لیکر جانا اس کا مقصد تھا۔
یہ 14اگست کا دن تھا، رمضان کا مہینہ تھا اور اس بابرکت مہینے کی 27ویں شب یعنی لیلۃ القدر، اس رات پاکستان آزاد ہوا، اللہ تعالیٰ نے دنیا پر باور کرایا کہ اگر دنیا والے سلطنت عثمانیہ کا تختہ ملیا میٹ کریں تو نظریہ اسلام نے پھر بھی زندہ رہ کر پاکستان کی شکل میں پروان چڑھنا ہے اور دنیا چاہے کہیں سے کدھر پہنچے اسلام ہی وہ آفاقی دین و مذہب ہے جو دنیا کے تحفظ، امن اور خوشحالی کا ضامن ہے، جس کے سامنے بہت سے نظام آئے بھی، لائے بھی گئے مگر سب نے انسانیت کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ سوشل اینڈ جسٹس سسٹم کی ضرورت اس وقت دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہے جس کے تحت لوگ سکھ کا سانس لے سکیں، برائے نام جمہوریت ہی ہے جس نے دنیا کے خدوخال تبدیل کرکے رکھ دیئے، پاکستان ہی وہ واحد ملک ہوگا جنہوں نے تمام انسانیت کے تحفظ کیلئے آگے آنا ہے۔
14اگست کا دن ہم ہر سال کی طرح بڑے دھوم دھام سے اس سال بھی منائیں گے۔ یہ آزادی کا دن ہے پاکستان کیلئے، اور پاکستانیوں نے اس دن کو ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی زندہ رکھنا ہے۔ یوم آزادی کے مناسبت سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے صبح فجر میں پاکستانی قرآن خوانی کرتے ہیں، ملک کے شہیدوں کیلئے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، سارے ملک کو دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے اور اس کی کامیابی اور کامرانی کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور لوگ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ سرکاری عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر اپنے ملک کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔ بسوں، ٹرکوں، سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں غرض ہر جگہ اپنے پیارے وطن کی جھنڈیاں لگی نظر آتی ہیں۔ یہاں 14اگست کے دن لوگ اپنی وفا کا اظہار کرنے کیلئے ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جلسے کئے جاتے ہیں، جس میں تقاریر، ملی نغمے وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس دن نوجوان، بزرگ، بچے اور عورتیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
مگر اس وقت ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم وہ خواب جنہیں علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا تھا اس ملک کیلئے، کیا ہم اس کی تعبیر پر کھڑے ہیں؟ کیا حال بنا دیا اس ملک کا، سیاست دانوں کیلئے سیاست نہیں مفادات عزیز ہوچکے، پچھلے سال عمران خان کی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے تو حد کردی کہ ہم آزادی کا دن نہیں منائیں گے۔ کیا سیاست ریاست سے بڑھ کر ہوسکتی ہے؟ وہ بھی آج کے دور میں جہاں سیاست پر لوگ اس وقت لعن طعن کر رہے ہیں۔ اگر ریاست ہے تو سیاست، معیشت، صنعت، حرفت، سیاحت سب ہے، خدا نخواستہ اگر ریاست نہ ہو تو یہ سب کچھ ختم ہو جائیگا۔ بلوچستان میں بہت سی قوم پرست جماعتیں ہیں جو آزادی کا دن نہیں مناتیں، اسی طرح سے معیشت دان کو ملک کی بہتری کے بجائے ذاتی معاشی زندگی درکار ہے، بیوروکریٹس بھی اپنی من مانیوں میں کسی سے پیچھے نہیں، عدالتوں میں موجود ججز کو ملک کی کوئی پروا نہیں البتہ عدالت کی توہین انہیں برداشت نہیں۔ جمہوریت برائے نام ضروری، جس سے ملک کو چاہے کتنا ہی نقصان پہنچے جمہوریت کے بغیر جیسے ہم مر جائیں گے۔
مگر چونکہ ناامیدی کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اقبالؒ بھی تو اپنی کشتِ ویراں سے ناامید نہیں تھے، ہم بھی بہتری کی امید رکھتے ہیں مگر صرف امید سے کچھ نہ ہوگا، کچھ عملی کردار بھی ادا کرنا ہوگا کیونکہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ وہ کبھی اس قوم کے حالات کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اس کیلئے تگ و دو نہ کرے۔
اقبال کا کہنا بھی یہی ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں بھی پاکستان کی بہتری کیلئے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام ایمانداری کے ساتھ بہترین انداز میں کرنا ہوگا۔ قائد کا پاکستان، نظریاتی پاکستان، اسلامی پاکستان ہی ہمارے لئے راہ نجات ہے، اس کے علاوہ جو بھی دعویٰ کیا جاتا ہے، لایا جاتا ہے، اس سے پاکستان کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی رہے گا۔ جس طرح سے سیاسی نعرے بازیاں کی جاتی ہیں آج کل، کسی نے نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر ملک کا بیڑا غرق کیا، کسی نے ووٹ کو عزت دو یا پھر پرانا پاکستان کا نعرہ لگا کر اپنے مفادات کی تکمیل کی، تو ایسے میں سیاست ملک پر قربان تو کی جاسکتی ہے مگر ریاست کبھی قربان نہیں کی جاسکتی۔ جس طرح سے آرمی چیف نے علماء کانفرنس سے خطاب میں دوٹوک انداز میں کہہ دیا کہ ریاست کیلئے ہم سب قربان مگر ریاست کو کبھی قربان نہیں ہونے دیں گے۔ اللہ رب العزت ہمارے پیارے پاکستان کو درپیش تمام مسائل سے رہائی دے اور اسے قیامت تک قائم و دائم رکھے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button