لٹل بوائے اور فیٹ مین۔ دنیا کیلئے عبرتناک ایٹمی بم
ڈاکٹر جمشید نظر
برطانوی نژاد امریکی فلمساز کرسٹوفرنولان کی سپرہٹ فلم ’’ اوپن ہائیمر‘‘ جب دنیا بھر کے سینماوں میں ریلیز ہوئی تو اس نے دھوم مچا دی اور بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے ۔ فلم ایٹم بم کے موجد’’ رابرٹ اوپن ہائیمر‘‘ کی زندگی کے اس حصے پر بنائی گئی تھی جب اس کو دنیا کا سب سے ہولناک ہتھیار ایٹم بم بنانے پر امریکہ کا قومی ہیرو قرار دیا گیا تھا۔ تاریخ کے سیاہ پنوں میں درج ہے کہ جنگ عظیم دوم میں امریکہ نے اوپن ہائمیر کے تیار کردہ ایٹم بم جاپان کے دو شہروں پر گرائے ، پہلا یورینیم بم 6اگست 1945ء کو جاپانی شہر ہیروشیما پر گرایا گیا جس کا نام ’’ لٹل بوائے ‘‘ تھا جبکہ دوسرا ایٹم بم اس واقعہ کے تین روز بعد 9اگست کو جاپان کے دوسرے شہر ناگاساکی پر گرایا گیا جس کا نام ’’ فیٹ مین‘‘ تھا جوکہ پلوٹونیم بم تھا۔ دونوں اقسام کے ایٹم بم جب جاپان کے شہروں پر گرائے گئے تو دولاکھ سے زائد انسان چند سیکنڈز میں راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ ایٹم بم کے اثرات اتنے خطرناک تھے کہ بعد میں بھی ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ان شہروں میں ایٹمی دھماکوں کے مضر اثرات ابھی تک کم نہیں ہوسکے۔ اوپن ہائیمر نے جب اپنے بنائے ہوئے ایٹم بم سے جاپان کی تباہی دیکھی تو اسے بڑی پشیمانی ہوئی، لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکتوں پر اس نے کئی مرتبہ دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور ایٹمی دھماکوں کے دو ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ امریکہ کے قومی ہیرو ’’ اوپن ہائیمر‘‘ نے جب اسلحہ کی مسابقت سے باز رہنے اور ہائیڈروجن بم بنانے کی مخالفت شروع کی تو اسے غیر محب وطن قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ آخر کار سن1967میں گلے کے کینسر کی وجہ سے اوپن ہائمر کا انتقال ہوگیا۔ اوپن ہائیمر کو اپنی ایجاد پر ساری عمر پچھتاوا تو رہا لیکن اس نے کبھی دنیا کے سامنے ایٹم بم بنانے پر معافی نہیں مانگی۔
ایٹم بم کی وجہ سے ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ہونے والی ہولناک تباہی کا کسی کو اندازہ بھی تھا۔ امریکہ کا جاپان پر ایٹم بم سے حملہ کرنا صحیح تھا یا غلط؟ اس نظریے کے حوالے سے عالمی سطح پر دو بڑے گروپ بن گئے، ایک گروپ کا کہنا تھا کہ ایٹم بم کا استعمال کرکے امریکہ نے بہت بڑی غلطی کی ہے جبکہ دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ایٹم بم کا حملہ کرکے ٹھیک کیا ہے کیونکہ اس ایٹمی حملے کے بعد دوسری عالمی جنگ جو دن بہ دن زور پکڑتی جارہی تھی وہ بند ہوگئی اور مزید لاکھوں افراد کی ہلاکتوں کا خطرہ ٹل گیا۔ کچھ گروپس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایٹم بم کے حملے کے بعد اب دنیا جان چکی ہے کہ ایٹم بم انسانی جانوں اور قدرتی ماحول کے لئے کس قدر خطرناک ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جاپان میں اتنے برس گزرنے کے باوجود اب تک ان شہروں میں ایٹمی دھماکوں کے مضراثرات کم نہیں ہو سکے۔ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق آج بھی ہیروشیما اور ناگاساکی میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص ضرور پایا جاتا ہے۔ موجودہ دور کے ایٹم بم سن 1945میں اوپن ہائیمر کے ایجاد کردہ ایٹم بم سے کہیں زیادہ طاقت رکھتے ہیں اس لئے خدانخواستہ مستقبل میں اگر خطے کے کسی حصے میں ایٹمی دھماکہ ہوا تو اس سے زمین پر ایک قیامت برپا ہوجائے گی۔ ناسا کے سائنس دانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب اگر زمین پر طاقتور ترین ایٹمی دھماکہ ہوا تو اس کے نتیجہ میں زمین کے مدار میں بھی خلل بھی پیدا ہوسکتا ہے جو زمین کو تباہ و برباد کر دے گا۔
قارئین کی دلچسپی اور علم میں اضافے کے لئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ خلاء میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے سیارے بھی گھوم رہے ہیں جنہیں قدرت کا بنایا ہوا ایٹم بم کہہ سکتے ہیں، سائنس دونوں نے ان قدرتی بموں کو ASTEROIDکا نام دے رکھا ہے، یہ سیارے فی الحال زمین سے دور اس کے اردگرد گھوم رہے ہیں لیکن خدانخواستہ جب کبھی یہ سیارے یا قدرتی ایٹم بم زمین سے ٹکرا گئے تو وہ دن زمین پر بسنے والے انسانوں کا آخری دن ہوگا، اگر اس دن کو قیامت کا دن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ خلائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ زمین پر جب ڈائنا سارز کی تعداد اور ان کی حیوانیت حد سے زیادہ بڑھنے لگی تو خلاء سے اچانک یہی قدرتی ایٹم بم ASTEROID اسٹیرائیڈ سیدھا زمین سے ٹکرائے تھے۔ زمین کی طرف بڑھتے ہوئے ان سیاروں کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے آگ کا ایک دیو قامت گولہ آرہا ہو۔ ڈائنا سارز نے جب زمین کی طرف بڑھتے ہوئے اس آگ کے گولے کی طرف دیکھا تو وہ سب اندھے ہوگئے۔ اسٹیرائیڈ زمین سے ٹکرائے تو چند لمحوں میں ڈائنا سارز سمیت زمین پر رہنے والی تمام مخلوق فنا ہوگئی۔ تحقیق کاروں کے مطابق فضاء میں اونچائی پر اڑنے والے ڈائنا سار پرندے وقتی طور پر تو بچ گئے لیکن اسٹیرائیڈ کے زمین سے ٹکرائو کے نتیجے میں جب آسمان پر دھوئیں کے بادل چھائے تو اڑنے والے ڈائنا سار پرندے بھی دم گھٹنے سے مر گئے۔ یوں دنیا پر بسنے والی ہر مخلوق کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور پھر ایک نئی دنیا اور نئی مخلوقات نے جنم لیا۔ ڈائنا سار کے دور کی طرح آج ایک مرتبہ پھر زمین پر انسانی حیوانیت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ آج کا انسان ڈائنا سار کی طرح ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ دہشت گردی، بم دھماکے، زیادتی، قتل و غارت اور بڑھتے ہوئے گھنائونے واقعات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ زمین پر ایک مرتبہ پھر قدرت کا بنایا ہوا ایٹم بم ’’ اسٹیرائیڈ‘‘ گرنے والا ہے۔