بنگالی جیت گئے، بنگالی ہار گئے
نذیر احمد سندھو
پاکستان میں صحافت جہالت کے ہاتھوں میں ہے، وارث میر والد حامد میر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے جرنلزم پڑھاتے تھے، بحیثیت ایک طالب علم میری ان سے دوستی کی وجہ ہیڈ آف جرنلزم مسکین حجازی تھے، وہ دونوں کو نا پسند کرتے تھے، ان کی نا پسندیدگی ہماری دوستی تھی۔ میر صاحب تنخواہ میں بمشکل گزارہ کرتے تھے جبکہ دونوں بیٹے ایم اے جرنلزم نہیں مگر پاکستان کے بڑے صحافی مانے جاتے ہیں۔ عامر میر تو ایک سال وزارت اطلاعات پنجاب بھی انجوائے کر چکے ہیں۔ اقبال ٹائون کے کامران بلاک میں میری رہائش تھی، پڑوس میں خبریں کے سینئر ایڈیٹر اعظم سہروردی رہتے تھے، ان کا روز کالم چھپتا تھا، اچھا لکھتے تھے، لہذا کوئی پڑھتا ہی نہ تھا، نام نہ بن سکا۔ ان کا بیٹا مزمل سہروردی میرے سامنے بڑا ہوا، ایف اے سائنس کالج سے کیا اور خبریں میں رپورٹر بن گئے، پھر نوائے وقت میں ایک دن میرے ڈرائنگ روم میری مزمل سے بات چیت ہو رہی تھی، کہنے لگے انکل لوگ سمجھتے ہیں جرنلزم میں بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں، ایسا بالکل نہیں، جتنا جاہل ہو گا اتنا ہی کامیاب ہو گا۔ دلیل بڑی سالڈ تھی چونکہ لوگ کم پڑھے لکھے ہیں لہذا ان کو وہی کالم پسند آتے ہے جو ان کے تعلیمی معیار کے ہوں۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید پنجاب یونیورسٹی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ
تھے، جرنلزم پر بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔ ڈاکٹر مہدی حسن بھی اسی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔ کسی کو ان کا نام بھی یاد نہیں، اعظم سہر وردی کا کوئی نہیں جانتا مگر مزمل کا شمار بڑے صحافیوں میں ہوتا ہے۔ یہ سب لکھنے کا مقصد ہے کل سے سب بڑے نام ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں بھاگ گئی، بھاگ گئی حسینہ واجد بھاگ گئی۔ نہیں مہرباں اسے safe exit دیا گیا، وہ جانا نہیں چاہتی تھی، مگر اسے جانے پر مجبور کیا گیا۔ میں کہتا ہوں بنگالی جیت گئے، ان کا مطالبہ تھا وزیر اعظم حسینہ استعفیٰ دیں، مطالبہ پورا ہوا، جیت گئے، میں کہتا ہوں بنگالی ہار گئے، بدترین شکل میں ہی سہی، حسینہ جمہوریت کا نشان تھی، جمہوریت چلی گئی اور جو ان کی جگہ آئے وہ جمہوریت کی ہار، عوام کی ہار، بنگالیوں کی ہار ہے۔ ہم سے، اور بنگالیوں سے بہتر کون جانتا ہے، فوج جانے کے لیے نہیں آتی، اقتدار کا چسکا زبان کو لگ جائے تو پھر چسکا جاتا نہیں، حسینہ کو نکالنے کے لئے 300 کی قربانی دی، جنرل وقار زمان کو نکالنے کیلئے شاید کئی ہزار کی قربانی دینا پڑے ۔ تبھی کالم کی سرخی جمائی ہے بنگالی ہار گئے۔ بنگلہ دیش میں دو عورتیں اقتدار کی دوڑ کو لیڈ کر رہی ہیں، حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء دونوں کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر ملا، دونوں کی کوئی سیاسی جدوجہد نہیں۔ مجیب الرحمان کی لمبی جدو جہد تھی، اقتدار اسے خون کی ندیاں کراس کرکے ملا تھا۔ اگر آج حسینہ کی جگہ مجیب ہوتا تو وہ ہر صورت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتا۔ مانا اس فیصلے کے اندر گومگو ہے، مگر پھر بھی ماننا چاہئے تھا، یہ جمہوریت کا حصہ ہے، عدالت کے ناپسندیدہ مشکوک فیصلے بھی مان لینا چاہئے۔ حسینہ کو معلوم ہونا چاہئے تھا اس فیصلے کے ساتھ جماعت اسلامی ہے، اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں بہت منظم اور مضبوط ہے، اس کی مضبوطی میں مظلومیت ہے، جو اسے حسینہ نے فراہم کی۔ جماعت اسلامی متحدہ پاکستان کی حامی تھی، جماعت نے1971ء میں مجیب کی مخالفت کی تھی، مگر یہ نظریاتی اور سیاسی تھی، مگر حسینہ نے اقتدار میں آ کر اسے ذاتی دشمنی بنا لیا۔ بنگلہ بندو کے قتل میں جماعت کا براہِ راست کوئی ہاتھ نہیں تھا، یہ خالص فوج کے لوگوں کا عمل تھا۔ مجیب الرحمان بحیثیت
صدر سرکاری کی بجائے دھان منڈی ڈھاکہ میں اپنی ذاتی رہائش میں رہائش پذیر تھا کیوں ؟، یہ الگ ٹاپک ہے، حیرت ہو گی وہ صدر بنگلہ دیش تھا، مگر کوئی سرکاری گارڈ نہیں تھا، ورنہ چند فوجی اندر کیسے گھس جاتے اور پورا خاندان قتل کر دیتے۔ ایک انٹرویو میں مجیب سے صحافی نے پوچھا آپ کی کوئی کمزوری، تو اس نے کہا بنگالیوں سے محبت، اور خوبی تو اس نے کہا بنگالیوں سے محبت، وہ سمجھتا تھا میں بنگلہ بندو ہوں، سارے بنگالی مجھ سے محبت کرتے ہیں، میرا کوئی دشمن ہی نہیں، مجھے گارڈ کی کیا ضرورت، اسے نہیں معلوم تھا سبز سبز گھاس کے اندر سانپ بھی چھپے ہوئے ہیں حسینہ فوج سے تو الجھ نہیں سکتی تھی، اس نے بے گناہ جماعت کے لیڈروں کو پھانسی پر چڑھا دیا، مظلوم بنا دیا۔ اب یہ جماعت کی اور اب یہ جماعت اور حسینہ کی سیاسی نہیں ذاتی لڑائی بن چکی ہے۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف جو تحریک اٹھی، اسے کنٹرول کرنے اور نعرے دینے والوں کے نعرے اور سٹائل دیکھ لیجئے، وہی جماعت کا جذباتی سٹائل، جو پاکستان انڈیا میں بھی نظر آئیگا۔ جماعت کا نوجوان نعرہ مارتا، تقریر کرتا، فوراً پہچانا جائیگا، بنگلہ دیش میں بھی وہی سٹائل ہے، حسینہ پہچان نہ سکی یا ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی لے ڈوبی۔ اسے یہ بھی دیکھنا چاہیے تھے ان نعروں کے پیچھے وردی تو نہیں، تین ماہ حماقتیں کرتی رہی۔ اگر استعفیٰ ہی دینا تھا تو عوامی مطالبے پر دے دیتی، جمہوریت کی لاج رکھ لیتی۔ استعفیٰ بھی دیا عزت بھی گئی۔ حسینہ پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام تھا، اس نے اس الزام کو بھی درست طریقے سے نہ ناپا۔ دوسرا الزام ہے اس کے دفتر کے چپراسی کے اکائونٹ میں 4ارب ٹکے ملے، حسینہ نے اس الزام کو درست طریقے سے ہینڈل نہ کیا، جواب دیتی، اسے پکڑتی، رقم بحق سرکار ضبط کرکے عوام کو بتاتی، گو معاملہ سادہ نہیں، مگر کچھ تو سنبھلتا۔ الٹا لوگوں سے سوال کرنے لگی بتائو ایک چپڑاسی کے اکائونٹ میں 4ارب کہاں سے آیا، سوال گندم، جواب چنا ۔ تمہارا چپراسی، وزیر اعظم تم اور بتائیں لوگ ٹکا کہاں سے آیا، اس جواب نے ثابت کر دیا ٹکا حسینہ کا تھا اور یقیناً تھا بھی اسی کا۔ آخر ہم ایک ہیں اور نیک بھی ہیں۔ بنگلہ اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے سول بیوروکریٹ پاکستان کے تربیت یافتہ تھے۔ انہوں نے وہ سارے رنگ ڈھنگ اپنے فالورز کو سکھا دیئے ہونگے اور کسی نے حسینہ کو بھی بتایا ہو گا الیکشن کے لئے مال و زر چاہئے۔ اگر آپ چاہیں تو یہ کام میں بڑی آسانی سے کر سکتا ہوں، اپنے پاکستانی گرو مافیا سے بہت کچھ سیکھ رکھا ہے۔ حسینہ تو حسینہ ان کی سیاسی رقیب خالدہ ضیاء کا نام تو پانامہ لیک میں بھی آ چکا ہے۔ سعودی عرب میں ایک پلازہ بھی ان سے منسوب ہے، پلازے کے قریب پاکستان کے سب سے بڑے لیڈر کا محل بھی بتایا جاتا ہے۔ خالدہ ضیاء کرپشن کا ایک جانا پہچانا نام ہے، وہ بھی وزیر اعظم رہ چکی ہیں، ان کے بیٹوں پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں، مگر وردی نے پہلا کارنامہ خالدہ ضیاء کو جیل سے نکالنے کا کیا ہے، حالانکہ سزا اسے عدالت نے دی تھی، حسینہ نے سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا توہین عدالت ہے اسے سزا ملنی چاہئے، عدالت سے سزا یافتہ کو رہا کرنے کا اختیار سزا دینے والی عدالت سے بڑی عدالت کا ہے بشرطیکہ اپیل ہو، عدالت کے حکم کے بغیر کسی مجرم کو چھوڑ دیا توہین عدالت نہیں۔ خالدہ ضیاء مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الرحمان کی بیوہ ہیں، اقتدار حسینہ کی طرح اسے بھی وراثت میں ملا۔ وزیر اعظم بنیں، مگر کوئی اچھا کام اس کے پے رول پر نہیں۔ حسینہ پر جہاں کرپشن کا الزام ہے وہاں کام بھی بہت کیا، دوسرا الزام ان پر بھارت سے محبت کا ہے۔ میرے ایک دوست آصف شاہکار سویڈن میں رہتے ہیں، بنگلہ فرینڈز کی لسٹ میں وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں حسینہ نے بطور سرکاری مہمان بنگلہ دیش آنے کی دعوت دی، میڈل پہنایا اور سرکاری مہمان کے طور بنگلہ دیش کے دیہاتوں تک جانے کی اجازت دی۔ وہ بتاتے ہیں حسینہ نے اپنے پہلے ہی دور میں تمام ٹیوب ویل سولر سسٹم پر کنورٹ کر دیئے، اس کے علاوہ کسانوں کو چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر جھینگے اور سیپ پالنے کے طریقے سکھائے، جھینگے دنیا بھر کی بڑی مارکیٹوں میں فروخت ہوتے ہیں اور سیپ کے موتی ہر طرح کے زیورات میں استعمال ہوتے ہیں۔ حکومت یہ دونوں چیزیں کسانوں سے خریدتی اور ایکسپورٹ کرتی، جس سے کسان خوشحال ہو گئے۔ گارمنٹس انڈسٹری کو بڑے پیمانے پر اسٹیبلش کیا، دنیا بھر میں بنگلہ دیشی کاٹن شرٹ میڈ ان بنگلہ دیش فروخت ہوتی ہیں اور کاٹن وہاں پیدا نہیں ہوتی۔35لاکھ خواتین صرف ڈھاکہ میں گارمنٹس انڈسٹری میں کام کرتی ہیں، زراعت، صحت، ٹیلی کام، تعلیم پر بہت کام کیا، دریائوں، ندی نالوں، جن کا وہاں قدرتی جال بچھا ہوا ہے، ان پر پل بنائے۔بنگلہ دیش کے 72تجارتی بحری جہاز ( فلیٹ) ہیں، جو دنیا بھر میں مال سپلائی کرتے ہیں۔ پاکستان کے 12ہیں، جن میں اکثر خراب پڑے ہیں۔ بنگلہ دیش کا سٹیٹس ایکپورٹر اکانومی کا ہے اور پاکستان کا ایمپورٹر اکانومی کا۔ بنگلہ دیش کل تک بھارت، چین کا مد مقابل تھا، کل کیا ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جنرل ارشاد کی تباہی کا دور واپس آ سکتا ہے۔ حسینہ جا چکی، وردی والے آ چکے اور عوام کو کہہ چکے آپ کا کام ختم، گھروں کو جائو، ہم سنبھال لیں گے۔ وردی ڈائریکٹ سٹیئرنگ وہیل پر بیٹھ جائے یا پردے کے پیچھے وہیل گھمائے، خالدہ ضیاء ، جماعت اسلامی اور دیگر پاکٹ پارٹیوں کو ملا کر حکومت بن جائے گی اور جلد بنگالیوں کو پتہ چل جائیگا وہ جیتے ہیں یا ہارے ہیں۔ ممکن ہے جلد بنگلہ دیش سے بھی یہ نعرہ سننے کو ملے، کھاتی ہے تو لگاتی بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے حسینہ کو واپس بلایا جائے، دوبارہ الیکشن کرائے جائیں، جو شفاف ہوں، جو جیتے وہی سکندر ۔ وقار الزماں اپنی بیرک میں واپس چلا جائے، مگر یہ سہانا خواب ہے، اس کی تعبیر جاننا مشکل ۔