اصولوں کی خلاف ورزی
امتیاز عاصی
یوں تو عدلیہ کی تاریخ نظریہ ضرورت سے عبارت ہے۔ عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بعض جج صاحبان ایسے ہو گزرے ہیں جو طاقتور حلقوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہے قانون اور آئین کی حکمرانی کو اپنا مطمع نظر بنائے رکھا۔ درحقیقت آئین اور قانون کی بالادستی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مخلوق کو انصاف کرنے والے جج عوام کے دلوں میں رہتے ہیں۔ ریاست پاکستان میں چیف جسٹس حمودالرحمان ، جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس بی زیڈ کیکاوس ایسے راست باز ججوں نے انصاف کی فراہمی کے لئے کسی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے فیصلے دے کر عدلیہ کی تاریخ میں امر ہو گئے البتہ وہ جو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیتے رہے قانون کی کتابوں میں حوالہ بن گئے۔ کسی موقع پر وزیراعظم نے جناب جسٹس ایم آر کیانی کو تقریب میں مدعو کیا تو انہوں نے شرکت سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ان کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں لہذا وہ کسی ایسی تقریب میں شریک نہیں ہو سکتے جس میں وزیراعظم موجود ہوں۔ عجیب تماشا ہے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار لاہور ہائی کورٹ سے بعض ججوں کو سپریم کورٹ لائے تو موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں مراسلہ تحریر کیا تھا انہوں نے عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے لئے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے تعجب ہے اب انہوں نے لاہور ہائی کورٹ سے سینارٹی میں چوتھے نمبر پر جج صاحب کو سپریم کورٹ لانے کی سفارش کرکے اپنے ہی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے حلفائے راشدین نے اپنے اپنے ادوار میں منصفی کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جو مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ڈنمارک میں جو قوانین رائج ہیں سیدنا عمر فاروقؓ سے منسوب کیا گیا ہے عہد فاروقی میں ہونے والے فیصلے مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ سیدنا عمر فاروق ؓنے جرم کی پاداش میں اپنے بیٹے کو کوڑوں کی سزا سنائی چند کوڑے لگنے کے بعد ان کی موت واقع ہوگئی تو فاروق اعظم ؓنے بقیہ کوڑے اس کے مردہ جسم پر مارنے کا حکم دیا۔ یہ تھا وہ انصاف جو ہمیشہ کے لئے مخلوق کے لئے مثال بن گیا۔ عہد حاضر میں بعض جج صاحبان جو بعض حلقوں کو گوارہ نہیں مگر ان کے فیصلے بولتے ہیں وہ وکلا برادری اور عوام کی نظروں میں محترم ہیں۔مروجہ طریقہ کار کے تحت سپریم کورٹ میں ججوں کی آسامی پر کرنے کے لئے چاروں صوبوں کے ہائی کورٹس کے جج صاحبان میں سے کسی نہ کسی کو سپریم کورٹ میں لایا جاتا ہے۔اس مقصد کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل ہے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان ، سپریم کورٹ کے جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون اور دیگر ارکان شامل ہیں جو ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے ناموں پر غور کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کا کام معمول کے مطابق ہو تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا لیکن معمول سے ہٹ کر کسی کو سپریم کورٹ میں لایا جائے تو ایسا حکومت اقدام باعث تنقید ہوتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب شہزاد احمد خان راولپنڈی میں پریکٹس کرتے رہے جہاں سے انہیں لاہور ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ ان کا دورانیہ بہت مختصر تھا اس دوران چند فیصلے کرکے وہ عدلیہ کی تاریخ کے راست باز ججوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔ ماتحت عدلیہ میں چند روز میں ججوں کی تعیناتی اور الیکشن ٹربیونل میں ججوں کی نامزدگی کے فیصلے بعض حلقوں کو گوارہ نہیں تھے۔ جناب شہزاد احمد خان کو پانچ چار کی اکثریت سے سپریم کورٹ میں لانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ جناب جسٹس شہزاد خان کا موقف ہے وہ حق تعالیٰ کو جواب دہ ہیں ایک روز انہیں اس کی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کسی کی کوئی سفارش نہیں چلے گی بلکہ اپنے اعمال کا خود جواب دینا ہوگا۔ یہ تھی ایک راست باز جج کی سوچ جس کے زور پر انہوں نے منصفانہ فیصلوں کو اپنا اوڑنا بچھونا بنائے رکھا۔ اسی حوالے سے ہم ایک مہربان راست باز سابق جسٹس عباد الرحمان لودھی سے بات کر رہے تھے ان کا کہنا تھا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اپنے منصفانہ فیصلوں کے باعث بعض حلقوں کو گوارہ نہیں تھے اسی لئے انہیں سپریم کورٹ لایا گیا ہے۔ یہ ہے اسلامی ریاست جہاں منصفانہ فیصلے کرنے والے جج صاحبان کی قدر و منزلت۔ وہ ارباب اختیار کی منشاء کے مطابق فیصلے دیتے تو چند مزید سال چیف جسٹس کے عہدے پر برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ بدقسمتی ہے اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست میں آئین اور قانو ن کو گھر کی لونڈی بنا دیا گیا ہے۔ عہد حاضر میں نہ تو عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا ہے بلکہ عدالتی فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا جا رہاہے کسی کو عدالت ضمانت پر رہائی دے دے تو اس کی دوبارہ گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ جس مملکت میں ایک وقت میں مختلف شہروں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں لوگوں کو نامزد کر دیا جائے ایسی ریاست میں انصاف فراہمی خواب بن جاتا ہے حالانکہ ایسے مقدمات چند روز میں ختم ہو جانے چاہیں۔ ملک میں جس طرح کا ماحول بن گیا ہے انصاف کی فراہمی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنا الو سیدھا کرنے کی خاطر ضمیروں کے سودے کئے ہوئے ہیں۔ جن سیاسی رہنمائوں کا مطمع نظر اقتدار اور لوٹ مار کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا ایسی ریاست کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہاں بعض جج صاحبان ہو گزرے ہیں جو سیاست دانوں کے اشاروں پر فیصلے کرتے رہے جس کے سبب انہی کی اولادیں اب وزارتیں لئے ہوئے ہیں۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والوں کے ضمیر مردہ ہو جائیں تو انصاف کی فراہمی ناممکن ہو جاتی ہے ۔ مملکت میں قانون اور آئین کی حکمرانی ہوتی تو ایک سیاسی جماعت کے بے شمار لوگ مقدمات کی سماعت کے بغیر جیلوں میں نہ ہوتے۔ اب تو عدالت کسی کو ضمانت دے اسے عہدے سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی شکایت سے عدلیہ نے کچھ سکھ کا سانس لیا ہے جس سے توقع کی جا سکتی ہے جج صاحبان بغیر کسی دبائو آزادانہ فیصلے کریں گے۔