پاکستان کی ترقی میں نوجوانوں کو درپیش مسائل

تحریر : انجینئر یعقوب علی بلوچ
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نوجوان ایک اثاثہ ہے اور ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ’’ قوموں کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
لہٰذا، ان کا ملک کی ترقی میں اہم کردار ہے، لیکن حمایت کی کمی کی وجہ سے وہ آج کے معاشرے میں بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں
ان میں شناخت کا بحران، خود اعتمادی کی کمی، ناامیدی اور الجھن کے احساسات ہیں۔ اور اخلاقی مسائل اور مستقبل کے بارے میں الجھن۔ وہ بندوق، تشدد اور منشیات کے کلچر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سب کا نتیجہ ایک غیر مستحکم معیشت، غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ٹوٹا اعتماد، لاقانونیت اور سماجی تانے بانے کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو درپیش اہم مسائل کیا ہیں۔
1۔ اس وقت ہمارے نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ڈپریشن ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے نوجوانوں کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں میں روزگار، صحت مند تفریح، صحت کی دیکھ بھال اور آگاہی کی کمی ہے۔ بے چینی کی وجہ سے مایوسی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ تعلیم نوجوانوں کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ اس سے وہ اپنے ملک کو ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، معیاری اور ہنر پر مبنی تعلیم ہمارے نوجوانوں خصوصاً غریبوں کے لیے اب بھی ایک خواب ہے۔ مطالعہ کے مخصوص کورس کے عقلی انتخاب میں طلباء کے لیے کوئی باقاعدہ رہنمائی نہیں ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام نہیں ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں اور کالج ڈگریاں تقسیم کرنے کی مشین بن چکے ہیں۔ تعلیم کا مطلب صرف درجات نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں نوجوانوں کا مستقبل ہے۔
2۔ ہمارے نوجوانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں کوئی نوکری نہیں ملتی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک کی خدمت کے لیے استعمال کر سکیں۔ یہ نوجوانوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے میں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ملک میں کم سرمایہ کاری کے لیے بگڑتے ہوئے حالات بھی ذمہ دار ہیں جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع کم ہیں۔ بے روزگاری ایک کثیر الجہتی اور پیچیدہ مسئلہ ہے جو متعلقہ مسائل جیسے کہ نوجوانوں کی نچلی سطح کی سیاست میں شرکت، بینک اور گھر میں ڈکیتی، سماجی عدم تحفظ، لاقانونیت اور منشیات کے استعمال کے ایک شیطانی چکر کو جنم دیتا ہے۔
3۔ غربت ہمارے نوجوانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ معیاری تعلیم حاصل کرنے اور اپنی دلچسپی کے شعبی کو آگے بڑھانے سے قاصر ہیں۔ غربت ایک ایسی بیماری ہے جو ہمارے نوجوانوں کو کمزور کر رہی ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر استعمال کرنے اور اپنے ملک کی خدمت کرنے سے قاصر ہیں۔ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو اسکول کی بجائے کام پر بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور انہیں چھوٹی عمر سے ہی کمائی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ چائلڈ لیبر ایک قسم کا طوفان ہے جو ہماری قیمتی صلاحیتوں کو ضائع کر رہا ہے۔ چائلڈ لیبر نوجوانوں کو بری صحبت اور غیر اخلاقی سرگرمیوں جیسے منشیات کے استعمال اور جرائم میں دھکیل سکتی ہے۔ کچھ نوجوان جو مصیبت میں ہیں کوئی دوسرا سکون نہیں پاتے اور منشیات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ہمارے نوجوانوں کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ وہ اپنی مشکلات سے لڑنے کے لیی یہ سستا ذریعہ تلاش کرتے ہیں۔ لیکن انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کی یہ عادت ان کی قیمتی صلاحیت کو ضائع کر دیتی ہے اور انہیں موت کے دہانے پر لے جاتی ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سراسر مایوسی میں خودکشی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی اہمیت کو سمجھے بغیر اپنی زندگی برباد کر دیتے ہیں۔ منشیات کا استعمال، غربت، بے روزگاری اور زندگی میں ناکامی اس لعنت کی بڑی وجوہات ہیں۔
مزید برآں، والدین کا دبائو اور ایک سخت نظام بھی ہمارے نوجوانوں کے لیے ایک bulletہے۔ سماجی پابندیاں ہمارے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں آزادانہ فیصلے کرنے سے روکتی ہیں۔ اور وہ اپنے خوابوں کی پیروی نہیں کر سکتے۔
4۔ آخری بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی پرورش میں میڈیا کا کردار بہت کم رہا ہے۔ زیادہ تر نوجوان ہمارے ٹی وی پروگراموں کو غیر دل لگی اور غیر کشش محسوس کرتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے جنوبی ایشیائی اور مغربی چینلز دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ثقافتی یلغار کے نتیجے میں ہمارے ملک کی ترقی میں ہمارے نوجوانوں کا کردار مایوس کن رہا ہے۔
بے شمار مسائل کے باوجود اب بھی وقت ہے کہ حکومت کچھ عملی اقدامات کرے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ حکومت نوجوانوں کی آبادی کو اثاثہ سمجھے نہ کہ بوجھ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ’’ قوموں کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے‘‘۔