ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔

ضیا الحق سرحدی
گزشتہ 15سے 20برسوں کے دوران ہمارے ملک میں خاصی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ٹیکنالوجی بہت عام ہوئی ہے، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی آمد سے جہاں فاصلے سمٹے ہیں، وہیں ان سہولتوں نے نوجوانوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے ہیں، ہمارے لوگوں کی سوچ میں بھی حیران کن حد تک تبدیلی آئی ہے، وہ اُن باتوں کو بھی اب معیوب نہیں سمجھتے جو ہر لحاظ سے غلط اور اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔ ہمارے لوگ فرنگیوں کی تقلید میں ہر حد سے گزرنے کو فخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ محبت ایک طاقتور انسانی جذبہ ہے۔ ایک ایسی قوت جو کسی زندگی کو آباد کر سکتی ہے اور برباد بھی۔14فروری کو دنیا اس جذبے کی اہمیت پر ویلنٹائن ڈے منا رہی ہوگی۔ ہر طرف انواع و اقسام کے دل، چاکلیٹ اور ساٹن کے بنے دل نظر آ رہے ہوں گے۔ لوگ اس یوم کو دلوں کا دن، سرخ گلابوں کا، شاعری کا، خوشیوں کا اور محبت کا دن قرار دیتے ہیں۔ سب ٹھیک مگر یہ کیسی محبت ہے کہ جس کی بقا تحفوں پر منحصر ہے۔ یہ کیسی محبت ہے جو سارے سال میں صرف ایک دن تک محدود ہے۔ یہ کیسی محبت ہے جو نفرت، جلن اور احساس کمتری پیدا کرتی ہے۔ اس دن کی ابتدا قدیم رومیوں کی ایک دیوتا کے مشرکانہ تہوار سے ہوئی ہے۔ یہ تہوار 15فروری کو منعقد ہوتا تھا۔ لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دئیے جاتے اور مرد دیکھے بغیر جس لڑکی کا نام نکالتے وہی تہوار کے ختم ہونے تک ان کی ساتھی ہوتی۔ کئی لوگ اس تہوار کو oupidسے متعلق سمجھتے ہیں، جو رومیوں کی محبت کا دیوتا تھا، جس کا یوم ویلنٹائن میں اہم کردار ہے۔ یہ لوگوں کے دلوں میں تیر مار کر ان کو عشق میں مبتلا کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے اس کی ماں محبت کی دیوی ہے۔ جس کا پسند دیدہ پھول گلاب ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے ہے، جس کو بادشاہ نے 14فروری کو اس جرم میں قتل کرا دیا کہ وہ اس کے ایسے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کراتا، جن کو شادیوں کی اجازت نہ تھی۔ دوران قید بشپ کو قید خانے کے داروغہ کی بیٹی سے عشق ہو گیا اور انہوں نے اس کو خط لکھا جس کے آخر میں دستخط کیے تمہارا ویلنٹائن ۔ یہ طریقہ بعد میں لوگوں میں رواج پا گیا۔496ء میں پاپائے روم نے سرکاری طور پر 15فروری کے مشرکانہ تہوار کو یوم سینٹ ویلنٹائن میں تبدیل کر دیا۔ ویلنٹائن ڈے ایک خاص رومی عید ہے، جس کی ابتدا سے متعلق کوئی تحقیقی بات کہنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ البتہ پتا چلتا ہے کہ اس کی ابتدا قریباً 1700سال قبل ہوئی تھی۔ اس وقت یہ ایک مشرکانہ عید تھی، کیوں کہ اہل روم کے نزدیک 14فروری کو لکڑی کے چمچے تحفے کے طور پر دئیے جانے کے لیے تراشے جاتے اور خوبصورتی کے لیے ان کے اوپر دل اور چابیاں لگائی جاتی تھیں۔ وصول کرنے والے کے لیے اس بات کا اشارہ ہوتا کہ تم میرے دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔ آج مسلمانوں میں جو غیر اسلامی رسوم پھیل رہی ہیں۔ ان میں سے قومی محرک مغرب کی ذہنی غلامی ہے، جو مسلمانوں کے دل و دماغ پر مسلط ہے۔ آج پاکستان کے نوجوانوں میں جو غیر اسلامی رسوم پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک رسم ویلنٹائن ڈے کا منایا جانا ہے۔ عشق و محبت کے اظہار و تجدید کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس عید کی مناسبت سے مبارکبادی کے کارڈ کا تحفہ ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں، بسا اوقات اس کارڈ پر Be My Valentine لکھا ہوتا ہے یعنی ( میرے ویلنٹائن محبوب بنو)۔ دونوں جنس ( عاشق و معشوق) ایک دوسرے کو پھولوں کا ہار یا گلدستہ پیش کرتے ہیں، اس موقعہ پر اس کثرت سے پھول بکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے مطابق دنیا میں پھولوں کا چالیس فیصد حصہ اسی مقصد کیلئے استعمال ہوتا ہے، حالانکہ اگر حقیقی محبت مفقود ہو تو اسے پھولوں کے ذریعے سے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ دونوں جنس ایک دوسرے کو ایسا کارڈ پیش کرتے ہیں جس پر یونانیوں کی عقیدت کے مطابق محبت کے خدا Cupidکی تصویر بنی ہوتی ہے اس کی شکل کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ ایک لڑکا ہے جس کے دوپر ہیں، اس کے ہاتھ میں تیر و کمان ہے اور وہ تیر کو محبوبہ کے دل میں پیوست کر رہا ہے۔ دونوں جنس اور عمومی طور پر غیر محرم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو چاکلیٹ اور مٹھائیوں کا پیکٹ بطور ہدیہ پیش کر کے اپنی محبت و عشق کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں ( یہود و نصاریٰ) کی قدم بقدم پیروی کرو گے، اگر وہ لوگ گوہ کے بل میں داخل ہونگے تو تم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے، آپؐ سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟، آپؐ نے فرمایا پھر اور کون؟‘‘۔ اس حدیث میں نبی کریمؐ نے خبر دی ہے کہ امت محمدیہؐ کے کچھ لوگ ہر بڑے اور خلاف شرع کام میں یہودی ونصاریٰ کے نقش و قدم پر چلیں گے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے ان کی تقلید میں مبتلا ہو جائیں گے حتیٰ کہ غلیظ کام میں بھی وہ ان منحوس وملعون قوموں کے نقش قدم کو اپنائیں گے، چنانچہ آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ : ’’ اگر یہودی و نصاریٰ میں کوئی ایسا شخص بھی ہوگا جو اپنی ماں کے ساتھ کھلے عام بدفعلی کریگا تو اس امت میں بھی ایسے نالائق اور بے غیرت لوگ پیدا ہونگے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے ( آمین)۔





