ڈپریشن اور اس کا علاج (1)

صفدر علی حیدری
ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو نہ صرف آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ یہ آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آج کے زمانے میں یہ مرض اس قدر عام ہو چکا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی شخص اس سے محفوظ بچا ہو ۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اس مرض میں زیادہ مبتلا ہوتی ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر پانچواں فرد کسی نہ کسی طرح ڈپریشن کی علامات اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے اور ممکن ہے ان میں سے بہت سوں کو خود اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ اس بیماری کا شکار ہیں ۔اس کالم میں اس کے علاج کے ساتھ ساتھ ان معاشرتی مسائل کا ذکر بھی مطلوب ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کو جھیلنے پڑتے ہیں یا ان کی وجہ سے معاشرے کو برداشت کرنا پڑتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ بہت سے لوگ نفسیاتی اور ذہنی امراض کا شکار لوگوں کو ’’ پاگل ‘‘ کہہ کر ان کی توہین کرتے ہیں ۔ یہ لفظ پاگل ایسا شدید ہتک آمیز لفظ ہے کہ پاگل کو بھی پاگل کہہ دیا جائے تو وہ پتھر ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے۔ میں کئی ایسے افراد کو جانتا ہوں جو بھولے بھالے سے تھے مگر لوگوں نے انھیں چڑا چڑا اور ان کو چھیڑ چھیڑ کر پاگل بنا دیا۔ اب وہ پاگل ہی کے طور پر مشہور ہیں۔ لوگوں کے ذہنی افلاس پر دکھ ہوتا ہے کہ وہ وقتی تفریح کے لیے انسانوں کے ساتھ کیسا غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ۔ اگر کوئی ترقی یافتہ معاشرہ ہوتا تو ایسے مکروہ ذہن لوگ ہی پاگل ڈکلئیر ہوتے ۔ میرا ایک افسانہ ’’ پاگل ‘‘ اسی حساس معاشرتی موضوع پر ہے ۔ ایک آدمی کسی ’’ موٹے دماغ ‘‘ والے کو پاگل کہتا ہے تو وہ غصے میں آ کر گالیاں دینے لگتا ہے ۔ اس پر وہ شخص کہتا ہے’’ دیکھا میں نے کہا تھا ناں کہ یہ پاگل ہے ‘‘ اور اس کا دوست سر ہلا کر کہتا ہے ’’ آج مجھے پتہ چلا کہ اصل پاگل کون ہے ؟‘‘۔ مقام شکر ہے تعلیم نے ہم پاکستانیوں کو اس حد تک شعور تو دے دیا ہے کہ نفسیاتی و ذہنی مسائل کو اب پاگل پن نہیں مرض سمجھا جانے لگا ہے۔ گھر کے افراد اپنے متاثرہ رشتہ داروں کا علاج کروانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ اب بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو نفسیاتی مسائل کا شکار لوگوں کو پاگل کہہ دیا کرتے ہیں۔ اب ایسے ماحول میں یہ بات بھی با آسانی دیکھی جا سکتی ہے کہ لوگ اپنی یہ بیماری چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نفسیاتی معالج سے رجوع کا مشورہ دینے والوں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لوگ یوں چڑ جاتے ہیں جیسے کوئی انھیں پاگل قرار دے رہا ہو ۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے علاج میں تاخیر کر دی اور اب وہ بچے لا علاج ہو کر گھر اور معاشرے کے لیے بوجھ بن گئے ہیں۔ والدین تو جیسے تیسے ان کا خیال رکھ لیتے ہیں لیکن ان کے بعد ان بے چاروں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے، سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ کسی کو پاگل خانے چھوڑ آتے ہیں، کسی کو درگاہوں پر اور بہت سوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں بھی کیا جاتا تو گھر میں ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنایا جاتا ہے۔ ڈپریشن کے مرض کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں سب سے بڑا عنصر خوف دکھائی دیتا ہے۔ حساس لوگ، جو چھوٹی چھوٹی باتیں دل سے لگا لیتے ہیں اس بیماری کا آسان شکار ثابت ہوتے ہیں اور ’’ اندیشہ ہائے دور دراز ‘‘ کے اسیر ہو کر اپنے مقام سے گر جاتے ہیں ۔ اب ہم بنیادی سوال کی طرف بڑھتے ہیں۔ یعنی یہ ڈپریشن ہوتا کیا ہے کہ جس کے زیر اثر لاتعداد لوگ طرح طرح کے عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس کا کتابی جواب تو جو ہو گا سو ہو گا۔ میں
نے تو اس کا روحانی جواب دینا ہے۔ اپنے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ جب ہمارا اپنے رب سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے تو انسان کا اپنی ذات سے تعلق بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ عرو الوثقی یعنی وہ رسی جو مخلوق کو خالق سے جوڑتی ہے ڈھیلی پڑ جاتی ہے، ٹوٹ جاتی ہے تو پھر انسان بھی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو کرچی کرچی بلکہ ریزہ ریزہ ہو جاتی اور پھر کبھی جڑ نہیں پاتا، ( اللہ تعالیٰ سب کو ایسی حالت سے بچائے ) انسان کی شخصیت تحت الثریٰ میں جا گرتی ہے۔ پاتال میں جا پڑتی ہے۔ انسان کو اپنا آپ ’’ اوپرا ‘‘ لگنے لگتا ہے ۔ انسان کا بولنے کو دل کرتا ہے نہ کچھ کھانے کو۔ نیند اڑ جاتی ہے ، نیند ہی کیا ہوش اڑ جاتے ہیں۔ سب سے برا اثر انسان کے موڈ پر پڑتا ہے۔ انسان کو کسی کام میں مسرت نہیں ملتی۔ اس کی خوشیاں کھو جاتی ہیں۔ انسان اگر شادی شدہ ہو یا عمر رسیدہ تو اس کے حالات اور بھی خراب ہو جاتے ہیں کہ اسے کمانے سے رغبت نہیں رہتی اور یوں وہ کفالت کی ذمہ داریاں نبھا نہیں پاتا اور گھریلو ناچاقیاں اس کا رہا سہا سکون چھین لیتی ہیں۔ انسان خود کو تنہا تنہا سا، ناکام، گنہگار، دھرتی پر بوجھ سمجھتے لگتا ہے۔ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اس کیفیت سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اسے خواب میں بھی یاد رہتا ہے کہ وہ بیمار ہے۔ موت کا خوف لاحق ہو جاتا ہے۔ خود کشی کرنے کو دل کرتا ہے مگر ہمت نہیں پڑتی۔ وہ سوچوں کے بھنور میں ایسا پھنستا ہے کہ عملی طور پر عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔ گویا سوچوں کا ایک ڈھیر سا بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ اور اس جیسی دیگر علامات اسے زندہ درگور کر دیتی ہیں۔ اسے سکون ملتا ہے نہ اس سب سے بچنے نکلنے کا کوئی راستہ۔۔ اکثر صورتوں میں گھر والوں کا منفی رویہ اسے دنیا چھوڑنے یا اپنا جسم چھوڑ کر کہیں فرار ہو جانے پر اکساتا ہے مگر وہ صرف کسمسا کر رہ جاتا ہے۔
( جاری ہے)





