Editorial

دہشتگردی کیخلاف سکیورٹی فورسز کا موثر کردار

سانحۂ نائن الیون کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اُس کی اس جنگ میں پاکستان اُس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بداثرات وطن عزیز پر بھی ظاہر ہوئے۔ یہاں امن و امان کی صورت حال کو بُری طرح گزند پہنچی۔ دہشت گردی کے عفریت نے ملک کے طول و عرض میں سر اُٹھایا۔ ملک کے گوشے گوشے میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہونے لگیں۔ روزانہ ہی پاکستان کے کسی حصے میں تخریبی کارروائی میں کئی بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہوتی تھیں۔ کوئی جگہ محفوظ نہ تھی، عبادت گاہوں تک کو آگ و خون میں نہلایا گیا۔ مساجد، مندر، گرجا گھروں تک میں دہشت گردی کی مذموم کارروائیاں کی گئیں۔ خودکُش حملے معمول تھے۔ کسی بھی وقت، کہیں بھی بم دھماکا کئی زندگیوں کے چراغ گل کردیتا تھا۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا، صبح کو ملازمتوں، حصول علم اور دیگر امور کے لیے نکلنے والوں کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ وہ صحیح سلامت شام کو گھر پہنچ بھی سکیں گے یا نہیں۔ ایک عجیب خوف و دہشت معاشرے کی رگ و پے میں سرایت کرچکی تھی۔ مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنے پیاروں کی صحیح سلامت گھروں کو واپسی کی دعائیں کیا کرتی تھیں۔ اس دوران اُن کے دل دہلے رہتے تھے۔ 14؍15 برس تک یہ صورت حال رہی۔ اس کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کاروباروں کو نقصانات پہنچے۔ شدید خوف و ہراس کی اس فضا میں سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور رونما ہوا، 150کے قریب معصوم طلباء کی شہادت کے سانحے نے ہر دردمند دل کو دہلنے اور رونے پر مجبور کردیا۔ علم کی شمع سے منور ہونے کے لیے جانے والے معصوموں کو بھی ان ظالم دہشت گردوں نے نہ بخشا۔ اُن کی جانیں تک لے لیں۔ اس کے بعد ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف راست آپریشنز کا آغاز ہوا۔ پہلے آپریشن ضرب عضب اور پھر ردُالفساد کے تحت ملک بھر میں چھپے دشمنوں کو چُن چُن کر اُن کی کمین گاہوں میں جہنم واصل کیا گیا۔ بہت سے پکڑے گئے، جو بچ گئے اُنہوں نے یہاں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ یوں ہمارے سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا۔ خوف و دہشت کے بادل چھٹ گئے۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ اب پچھلے کچھ مہینوں سے پھر سے دہشت گردی کا عفریت ملک میں سر اُٹھارہا ہے۔ خاص طور پر صوبہ بلوچستان اور کے پی کے اس سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں، ان صوبوں میں آئے روز کوئی نہ کوئی مذموم دہشت گردی کی کارروائی سامنے آتی ہے۔ خصوصاً سیکیورٹی فورسز پر حملے تواتر کے ساتھ جاری ہیں، جن کا ہمارے بہادر جوان انتہائی جانفشانی سے مقابلہ کررہے ہیں۔ پاک افواج بھی ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے پاک کرنے کے مشن پر گامزن ہے اور اس حوالے سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے۔ مختلف کامیاب آپریشنز بھی اس سلسلے میں پچھلے دنوں کیے جاچکے ہیں۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں خودکُش حملے کے باعث 2جوانوں سمیت4افراد شہید جب کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے دوران 6دہشت گرد مارے گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے دتہ خیل کے عام علاقے میں خودکُش بم بار نے خود کو دھماکے سے اُڑالیا۔ دھماکے میں دو جوانوں سمیت چار افراد شہید ہوگئے، شہدا میں چارسدہ کے 33سالہ نائیک سیداللہ شاہ، ضلع ہری پور کے31سالہ سپاہی جواد خان، خیبرپختونخوا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے پولیس کانسٹیبل حکیم جان اور ایک شہری نے شہادت کو گلے لگالیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خودکُش حملہ آور کا ارادہ ایک عوامی اجتماع کو نشانہ بنانا تھا، لیکن سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری جوابی کارروائی نے ایک بڑی تباہی کو روک دیا، کیونکہ فوجیوں نے فوری طور پر خودکُش حملہ آور کی گاڑی کو شک کی بنیاد پر روک لیا اور متعدد معصوم جانوں کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میں ہونے والا خودکُش حملہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے، شکر ملک و قوم بڑی تباہی سے بچ گئے۔ خود کو قربان کرکے ان بہادروں نے کئی بے گناہ اور معصوم عوام کی زندگیاں بچالیں۔ یہ جوان ملک و قوم کا فخر ہیں، جنہوں نے وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کی قسم کھائی ہوئی ہے اور اس کے لیے وہ اپنی جانوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ وطن پر مر مٹنے کی اس سے بہتر نظیر کوئی اور نہیں پیش کی جاسکتی۔ شہید کبھی نہیں مرتے، عوام اپنے شہدا سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں اور ان کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ دوسری جانب آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے ضلع کوٹ اعظم میں خفیہ معلومات پر کارروائی کی۔ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں 6دہشت گرد جہنم واصل ہوگئے۔ ہلاک دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور معصوم شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے۔ ہلاک شدگان سے اسلحہ اور گولا بارود برآمد ہوا، دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے، علاقے کے مقامی لوگوں نے آپریشن کو سراہا۔ علاوہ ازیں صدر علوی، وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو، سابق صدر آصف علی زرداری، فضل الرحمان چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وفاقی و صوبائی وزراء نے خود کش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے شہداء کے خاندانوں سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ جنوبی وزیر ستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، یقیناً بڑی کامیابی ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز ملک بھر میں امن و امان کی خاطر سنجیدگی کے ساتھ کوشاں ہیں اور اس کے لیے آپریشنز کیے جارہے ہیں۔ مختلف علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کیا جارہا ہے اور یہ کارروائیاں تواتر کے ساتھ جاری رہیں گی۔ ان شاء اللہ پاک افواج دہشت گردی کے خاتمے کے اپنے مشن میں ضرور سرخرو ہوں گی اور جلد پھر سے امن و امان کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔

اسمگلنگ کی روک تھام، راست اقدامات ناگزیر

وطن عزیز کو درپیش قدیم اور اہم مسائل میں اسمگلنگ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے ملکی خزانے کو بھاری نقصانات کا ہر برس سامنا رہتا ہے۔ یہاں غیر قانونی طور پر بیرون ملک سے غیر معیاری، زائد المیعاد اور مضر صحت اشیاء بڑی مقدار میں اسمگل کرکے لائی جاتی ہیں، جو ملک کی مختلف مارکیٹوں میں کھلے عام فروخت ہورہی ہوتی ہیں۔ ان میں الیکٹرانکس آئٹمز بھی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہاں سے بہت سی اشیاء غیر قانونی طور پر اسمگل بھی کی جاتی ہیں۔ اربوں روپے کا مال اسمگل کر دیا جاتا ہے اور کوئی قانون کی گرفت میں بھی نہیں آپاتا۔ چوری شدہ مال بھی یہاں سے پڑوسی ملک کو اسمگل کیا جارہا ہے۔ ایک بڑا انکشاف یہ ہوا ہے کہ پاکستان سے بڑے پیمانے پر موبائل فونز کو افغانستان اسمگل کیا جاتا ہے۔ ملک میں موبائل فونز کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافے کی وجہ بھی یہی بتائی جارہی ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع شدہ خبر کے مطابق موبائل مہنگے ہونے کی بڑی وجہ سامنے آگئی، کراچی سے ہر سال چوری شدہ اور چھینے گئے لاکھوں موبائل فونز افغانستان سمیت دیگر ممالک اسمگل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں ہر سال 50ہزار سے زائد شہریوں کے موبائل فون چوری یا چھین لیے جاتے ہیں، کچھ موبائل ری پیک ہو کر یہاں فروخت ہوتے ہیں اور باقی اسمگل کردیے جاتے ہیں۔ کراچی کی کوئی گلی محلہ ایسا نہیں جہاں آپ بغیر ڈرے موبائل فون استعمال کرسکیں۔ شہرِ قائد میں رواں سال 11ہزار 500شہریوں سے موبائل فون چھینے جاچکے جب کہ گزشتہ سال 28ہزار سے زائد شہری اپنے موبائل فونز سے محروم ہوئے تھے۔ یہ انکشاف تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر پاکستان سے افغانستان موبائل فون کی اسمگلنگ یقیناً کوئی معمولی امر نہیں۔ اس کے تدارک کے لیے متعلقہ حکام کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسمگلنگ سنگین مسئلہ ہے، اس کے سدباب کے لیے حکومت کو راست اقدامات ممکن بنانے چاہئیں۔ بہت ہوچکا، عرصہ ہوگیا، اسمگلنگ کا عفریت قابو میں نہیں آسکا۔ اب اس کو ہر صورت قابو کیا جائے۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس کے تحت ملک بھر میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اسمگلنگ میں ملوث گروہ کی ریکی کی جائے، اُن کے خلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈائون کیا جائے۔ ان کارروائیوں کو سب سے بڑھ کر اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک اسمگلنگ کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اور اس کالے دھندے میں ملوث عناصر قانون کی گرفت میں نہیں آجاتے۔ یقیناً اس ضمن میں اُٹھائے گئے درست قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button