ColumnQadir Khan

عمران خان کی گرفتاری: جمہوری چیلنج یا خطرناک جوا؟ .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے القادر ٹرسٹ کیس میں اپنی گرفتاری کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ان پر پہلے ہی بدعنوانی کے ایک اور مقدمے میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے، 9مئی کے قابل مذمت واقعات کے بعد عمران خان اور ریاست کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی ہے، کوئی بھی محب الوطن پاکستانی ایسے واقعات کی حمایت نہیں کر سکتا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور تشدد کو جنم دیا، جس سے ان کے اور اداروں کے درمیان دراڑ کو مزید بڑھا دیا۔ گزشتہ سال اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد عمران خان زیادہ ناقد بن گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ایک منظم منصوبہ بنایا گیا ہے تاکہ ان کی مخالفت کو خاموش کرایا جا سکے لیکن ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک نااہل رہنما ہیں جو اصلاحات اور احتساب کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
عمران خان 2018ء میں اقتدار میں آئے، کرپشن، غربت اور ناانصافی کے خاتمے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے خود کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر پیش کیا جو جمود کو چیلنج کر سکتا ہے اور ایک ’’ نیا پاکستان‘‘ بنا سکتا ہے۔ انہیں فوج و عدلیہ کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی، ان کے ہنی مون کا دورانیہ وقت سے قبل ہی ختم ہو گیا کیونکہ انہیں معیشت کو سنبھالنے کے لیے بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جو کساد بازاری میں ڈوب گئی اور اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آئوٹ کی ضرورت تھی۔ انہیں اقربا پروری، دوستی اور طاقت کے غلط استعمال کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا، جس نے بدعنوانی کے خلاف ایک شفاف شخصیت کی شبیہ کو ختم کر دیا۔ اہم نکتہ اس وقت آیا جب عمران خان پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ کھو بیٹھے اور ان کی جماعت اور اتحاد کے متعدد اراکین اپوزیشن میں چلے گئے۔ انہوں نے اسٹبلشمنٹ کو اپنے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے اپنے مقصد کے لیے عوامی حمایت کو متحرک کرنے کے لیے ملک گیر مہم بھی شروع کی۔ انہوں نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب ریاست نے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے جواب دیا۔ ان کے خلاف بدعنوانی سے لے کر غداری تک کے درجنوں مقدمات درج کرائے گئے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں کو بھی گرفتار کیا، اس کے دفاتر اور جائیدادوں پر چھاپے مارے، اور اس کی میڈیا تک رسائی کو روک دیا۔ حکومت نے ان کی گرفتاری کے بعد پھوٹنے والے پرتشدد مظاہروں کو روکنے کے لیے ملک بھر میں فوج اور نیم فوجی دستوں کو بھی تعینات کیا۔
اتحادی حکومت کے اقدامات کو معاشرے کے کچھ طبقوں کی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے، جنہوں نے امن و استحکام کی بحالی کے لیے ان کی مداخلت کو ایک ضروری قدم قرار دیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو ان کے مبینہ جرائم اور ناکامیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے پر بھی ان کی تعریف کی۔ ان کا مبینہ موقف ہے کہ خان ہیرو نہیں بلکہ ایک ولن ہے جس نے اپنے مینڈیٹ اور اپنے ملک سے مبینہ غداری کی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کا کہنا ہے اس وقت تقریروں کی جنگ جاری ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ اس تصادم کا نتیجہ غیر یقینی اور غیر متوقع ہے۔ عمران خان اور مخالفین کے درمیان بات چیت کے ذریعے تصفیہ کی طرف لے جایا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مزید کشیدگی اور تشدد کی لہر کم ہوسکتی ہے۔ مقتدر حلقوں کی ثالثی ایک آئینی بحران یا سیاسی خلا کو بھی پُر کر سکتی ہے جو بیرونی مداخلت یا اندرونی انتشار کو دعوت دے رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو مسلسل کوششوں کے بعد بالا آخر نیب نے بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرکے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا، ضماتیں ملنے کے بعد انہوں نے اپنی تنقید کو مزید بڑھا دیا جو پاکستان کی سیاست میں عدم برداشت اور انتشار و خلفشار کے بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں اسے اپنے جمہوری مستقبل کے لیے مواقع اور چیلنجز دونوں کا سامنا ہے۔ عمران خان کی بیان بازی ایک جمہوری چیلنج ہو سکتی ہے یا ایک خطرناک جوا، اس بات پر منحصر ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اسے کیسے نمٹتے ہیں۔ دنیا کو پاکستانی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ وہ اپنے حقوق اور آزادیوں کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں کسی بھی ایسے اقدام سے خبردار کرنا چاہیے جس سے ان کے ملک کے استحکام خود مختاری اور سلامتی کو خطرہ ہو۔
جگر مراد آبادی کہہ گئے:
تجھ سا حسیں اور خون محبت
وہم ہے شاید سرخی دامن
برق حوادث اللہ اللہ
جھوم رہی ہے شاخ نشیمن
دل کہ مجسم آئینہ
ساماں بیٹھے ہم ہر بزم میں
لیکن جھاڑ کے اٹھے اپنا دامن
ہستء شاعر اللہ اللہ
حسن کی منزل عشق کا مسکن
کام ادھورا اور آزادی
نام بڑے اور تھوڑے درشن
شمع لیکن دھندلی دھندلی
سایا لیکن روشن روشن
کانٹوں کا بھی حق ہے کچھ
آخر کون چھڑائے اپنا دامن
چلتی پھرتی چھائوں ہے پیارے
کس کا صحرا کیسا گلشن

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button