Editorial

مہنگائی سے عدم استحکام کا خطرہ

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے خبردارکیا ہے کہ پاکستان میں آئندہ برس بھی مہنگائی کی شرح برقرار رہے گی، جس کے باعث ملک میں مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت اور قرض کے لیے ساتویں اور آٹھویں جائزے سے متعلق رپورٹ جاری کر تے ہوئے خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافے کو مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح 20 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے کئی وعدوں اور اہداف پر عملدرآمد نہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت نے زرمبادلہ کے ذخائر اور پرائمری بجٹ خسارے سمیت 5 اہداف پورے نہیں کئے۔ 3 کارکردگی اور 7 سٹرکچرل شرائط بھی پوری نہیں کی گئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیاکہ مالی سال 2022ء میں پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مضبوط رہیں۔ فیول سبسڈی کا خاتمہ، ایندھن اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا۔زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں نمایاں کمی آئی ہے۔ حکومت نے قرض پروگرام کو ٹریک پر لانے کے لیے کئی اقدامات کئے جن میں بنیادی سرپلس پر مبنی بجٹ، شرح سود میں نمایاں اضافہ شامل ہیں۔ فیول سبسڈی کا بھی خاتمہ کیا گیا۔ متذکرہ رپورٹ میں بعض اقدامات پر زور دیاگیا ہے اورکئی جگہ پر موجودہ وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں کا بھی ذکر کیاگیا ہے، اس پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ملک میں رواں ہفتےمہنگائی کی شرح بڑھ کر 45.50فیصد ہو گئی ہے۔ذرائع ابلاغ کی ایک اور رپورٹ کے مطابق یوٹیلٹی سٹورز پر مختلف برانڈز کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، چائے، بچوں کا دودھ اور اچار سمیت مختلف اشیاء مہنگی کرتے ہوئے ترجمان نے موقف اختیار کیا ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز پر دستیاب اشیاء کی کوالٹی سب سے اعلیٰ اور قیمتیں سب سے کم ہیں۔ملک بھر کے تمام سٹورز پر ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کی بہتری کے لیے کچھ برانڈزکی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے جو ان برانڈز کی طرف سے ہے۔ایک روز قبل بھی ہم نے مہنگائی کے موضوع پر بات کی تھی لیکن آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ چونکا دینے والی ہے اوراسی کو تمام اخبارات نے شہ سرخی میں لیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح آئی ایم ایف کی یہ رپورٹ ہمارے لیے تشویش کا باعث بنی ہے یقیناً حکومت کے لیے بھی باعث تشویش ہوئی ہوگی کیونکہ مہنگائی کے نتیجے میں ہونے والے مظاہرے کب کیا رخ اختیارکرلیں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا اور خصوصاً جب ہمارے سامنے سری لنکا اور اس کے بعد دوسرے ممالک کے حالات ہوں تو تشویش میں اضافہ ہونا

یقینی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے قرض ملنے کے بعد اگرچہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ختم ہوگیا ہے اوراس قرض کے حصول کے لیے جتنی کوشش اور پھر انتظار کیاگیا وہ بھی سب کے سامنے ہے، اس دوران حکومت مخالف جماعت پر الزامات بھی سامنے آئے اور خوب بحث بھی ہوئی، اب چونکہ قرض مل چکا ہے اور بلاشبہ یہ حکومت کی معاشی ٹیم کی بڑی کامیابی ہے مگر اب معاشی ٹیم بالخصوص حکومت کی کوشش ہونی چاہیے کہ عوام کے معاشی مسائل کو دیکھیں اور پوری توجہ کے ساتھ عوام کو مہنگائی کے عفریت سے آزادی دلائیں کیوں کہ عوام کی چیخ و پکار بلاوجہ نہیں، اب تو وفاقی ادارہ شماریات اور دیگر حکومتی ادارے اور شخصیات خود اعتراف کررہی ہیں کہ مہنگائی بے تحاشا بڑھ چکی ہے اور عوام کو ریلیف ملنا چاہیے۔ پس ثابت ہوا کہ آئی ایم ایف، حکومتی ادارے، حکومت کی معاشی ٹیم اور حکومتی اتحادی جماعتیں بھی عوام کے واویلے کو درست تسلیم کررہے ہیں تو پھر اب ساری توجہ عوام کو ریلیف دینے پرمرکوز کردینی چاہیے تاکہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو جیسا آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہاگیا ہے اور سری لنکاسمیت ہم بعض دوسرے ممالک کا حال دیکھ بھی رہے ہیں جہاں عوام مہنگائی کی وجہ سے سڑکوں پر ہیں۔ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اورپوری دنیا میں مہنگائی اپنی بلندی کو چھورہی ہے اِس لیے ہم زد میں نہ آئیں کیسے ممکن ہے، ہماری برآمدات کم اوردرآمدات انتہائی زیادہ ہیں پوری دنیا سے اکٹھا ہونے والا پاکستانیوں کا زرمبادلہ درآمدات کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے اور حکومت کوئی بھی ہو،ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ جاتی ہے کہ نظام مملکت کیسے چلایا جائے۔ انتہائی مودبانہ گذارش ہے کہ اگر بجلی، گیس اور پٹرول سمیت دیگر اشیائے ضروریہ پر سبسڈی کا خاتمہ کیاگیا ہے تو اس کے بدلے میں عوام کو ریلیف کیا دیا گیا ہے کیونکہ حکومت کے پاس ریلیف دینے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں اور آئی ایم ایف کی حالیہ قسط ملنے سے پہلے ہم جس کیفیت میں مبتلا تھے اِس کوبھی نہیں بھولا جاسکتا کہ ہمہ وقت ڈیفالٹ ہونے خطرہ منڈلارہا تھا، ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں مہنگائی نے کئی دہائیوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور اس کے بڑے عوامل میں کرونا،یوکرین پر روسی کا حملہ اور قدرتی آفات شامل ہیں اور ماہرین معیشت دعویٰ کررہے ہیں کہ ان حالات کی وجہ سے کساد بازاری کی دلدل میں کئی ممالک کے آنے کے امکانات بڑھ گئے، اور مہنگائی کی یہ لہر آئندہ سال جاری رہے گی جیسا کہ آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے۔ فقط گذارش ہے کہ کیا حکمران جماعت نے ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی ہے اور کیا یکے بعد دیگرے پیش کئے جانے والے موقف مہنگائی اور غربت میں دھنسی ہوئی عوام کے لیے کافی ہوں گے؟ حکومت کو فوری طور پرعوام کو مہنگائی کی دلدل سے نکال کر ان کے معاشی حالات ٹھیک کرنا ہوں گے تاکہ آئی ایم ایف کے خدشات غلط ثابت ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button