Editorial

ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آٹھ سالہ طویل سماعتوں کے بعد تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کردیاہے۔ تحقیقات کے دوران پی ٹی آئی پر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو گئی ہے۔ تحریک انصاف کے 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے اور آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں ممبر نثار احمد درانی اور ممبر شاہ محمد جتوئی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی پر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہو ئی اور چیئرمین تحریک انصاف و سابق وزیراعظم عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ہے اور پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔تحریک انصاف کے 13 نامعلوم اکاؤنٹس سامنے آئے جن میں امریکہ ، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لیے گئے تاہم پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی ہے۔ آئین کے مطابق اکاؤنٹس چھپانا غیر قانونی ہے، پی ٹی آئی نے 34 غیر ملکیوں، 351 کاروباری اداروں اور کمپنیوں سے فنڈز لیے ہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ لی اس کے علاوہ عارف نقوی کی کمپنی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالرز اور یو اے ای کی کمپنی برسٹل انجینئرنگ سروسز سے 49 ہزار 965 ڈالرز ممنوعہ فنڈنگ لی گئی مگرسیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے آرٹیکل 6 سے متعلق ممنوعہ فنڈنگ ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے بعد اب زیادہ تر انحصار حکومت پر ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف کتنی سختی کے ساتھ کارروائی کرنا چاہے گی اوریقیناً پی ٹی آئی کے چیئرمین اور پی ٹی آئی کے بطور جماعت سخت سے سخت ترین کارروائی تجویز کرسکتی ہے ، دوسری طرف آئینی و قانونی ماہرین بھی متذکرہ فیصلے پر متضاد رائے کا اظہار کررہے ہیں لیکن چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی پارٹی کی قسمت کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ آئین و قانون اور شواہد کی روشنی میں ہی کرے گی اور سبھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے منتظر رہیں گے۔ برسراقتدار ہونے کے دوران بھی پی ٹی آئی کا مطالبہ رہا ہے کہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کیسز کا بھی ایک ساتھ فیصلہ سنایا جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا بھی فیصلہ ریکارڈ پر موجود ہے جس میں یہی ہدایت دی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ آنے سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کے الزامات لگائے جارہے تھے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فیصلے میں فارن فنڈنگ کی بجائے ممنوعہ فنڈنگ کا لفظ

استعمال کیا ہے اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کے معاملے پر ویسی سزا نہیں ہوگی جیسی فارن فنڈنگ کے معاملے میں ہوسکتی تھی۔ بلاشبہ دیار غیر میں مقیم ہمارے ہم وطن اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو فنڈز کے ذریعے سپورٹ کرتے ہیں اور یقیناً اس کے بغیر ملک گیر سطح کی سیاسی پارٹیوں کے لیے پارٹی معاملات چلانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن کے برابر ہوتا ہے، بڑی سیاسی جماعتوں نے دوسرے ممالک میں بھی اپنے عہدیدار نامزد کئے ہوئے ہیں جو بیرون ملک رہ کر بھی اپنی ملکی سیاست میں کسی نہ کسی طریقے سے سرگرم رہتے ہیں اور بوقت ضرورت اپنی پارٹی کو فنڈز بھی مہیا کرتے ہیں اور پھر یہی فنڈز رابطہ عوام اور جلسے جلوسوںکے انعقاد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، کچھ دہائی پہلے تک اوورسیز پاکستانی ، اپنے ملک کی سیاست سے دور تھے یا کم دلچسپی کا اظہار کرتے تھے لیکن اب تو قریباً ہر ملک میں مقیم پاکستانی ، ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کے ذریعے نہ صرف قومی سیاست پر کڑی رکھتے ہیں بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے حصہ بھی لیتے ہیں اور اپنی پسند کی پارٹی کو فنڈنگ کرنا بھی اِس کی ایک قسم ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں جیسی تیسی جمہوریت تو ہے لیکن پارٹی کے لیے فنڈز اکٹھاکرنے کا نظام یا تو ہے ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے پارٹی معاملات کا بوجھ زیادہ تر مالی لحاظ سے مضبوط عہدیدار ہی اٹھاتے ہیں یا پھر اوور سیز پاکستانیوںکی طرف سے بھیجے جانے والے فنڈز کام آتے ہیں۔ چونکہ ہماری ملکی سیاست میں نمائش اور تشہیر کا عنصر بہت زیادہ نمایاں ہوچکا ہے،عوامی جلسے کے پنڈال میں دیوقامت ہورڈنگز، سکرینز اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے، اسی طرح انتخابات میں حصہ لینا بھی بھاری بجٹ کا کام ہے اگرچہ الیکشن کمیشن کو جمع کرائے جانے والے گوشواروں میں حقیقت کے برعکس اعدادو شمار پیش کیے جاتے ہیں لیکن کوئی انتخاب جیتے یا نہ جیتے کروڑوں روپے کے اخراجات کرنا پڑتے ہیں، یہ باتیں بیان کرنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اوورسیز پاکستانیوں کی مدد کے بغیر اتنا اخراجات خود سے نہیں کرسکتی اس لیے سیاسی جماعتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اوور سیز سے فنڈز لیتے ہوئے قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے راست طریقہ اپنائیں جو آئین و قانون میں تجویز کیاگیا ہے تاکہ ایسی صورتحال سے بچا جاسکے جیسی صورتحال کا پی ٹی آئی کو سامنا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اب عوامی دبائو اور رائے عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے لازم ہوچکا ہے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف بھی فنڈنگ کے کیسز کا جلد ازجلد فیصلہ سنائے تاکہ عام انتخابات کے وقت اُس کی غیر جانبداری سبھی کے سامنے ہو اور ایسے الزامات نہ لگائے جائیں جیسے الزامات کا حالیہ دنوں میں اُسے سامنا ہے ۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو ایسی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ انہیں عدالتی کارروائی جیسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button