Columnمحمد مبشر انوار

لاڈلا کون ! ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

جیسے جیسے سیاسی معاملات آگے بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے قائدین کی’’سیاسی بلوغت‘‘پررائے مستحکم ہوتی جا رہی ہے کہ یہ خود ساختہ سیاسی قائدین صرف اور صرف اقتدار کے خواہشمند ہیں،ملک و قوم کی فکر انہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔اقتدار کے حصول میں ریاستی اداروں کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جا رہاہے،حکومتی رٹ کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے، امن و امان کی صورتحال کس طرح دگر گوں کی جار ہی ہے،قانون کی بالا دستی کو کس طرح روندا جا رہا ہے،یہ کسی بھی طور بالغ سیاسی قیادت کا طریقہ کار نہیں ہے۔من پسند فیصلوں کے حصول کی خاطر ،کس طرح محاذآرائی کی جاتی ہے اور کیسے ریاستی مشینری کو دیوار کے ساتھ لگا کر فیصلے کروائے جاتے ہیں،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور جہاں فیصلے حق میں نہ ہوں وہاں کس طرح ذاتیات پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے،یہ سب موجودہ دور میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔کہنے کو سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتی ہیں لیکن نہ تو ان سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہے اور نہ ہی یہ جمہوری اقدار پر یقین کرتی دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی جمہور کے ووٹوں سے اقتدار کا حصول ان کا اولین ہدف ہے۔ مخالف سیاسی قیادت یا سیاسی جماعت پر کیچڑ اچھالنے کے لیے یہ ہمہ وقت تیار دکھائی دیتی ہیں اور مقتدرہ کی حمایت حاصل کرنے کا الزام اس وقت تک مخالفین پر رہتا ہے جب تک مقتدرہ اقتدار کا تاج ان کے سر پر نہ سجا دے اور جیسے ہی ہما ان کے سر بیٹھتا ہے،مقتدرہ کی تحسین میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں،جبکہ تنقید دوسری جماعت کے حصہ میں آ جاتی ہیں۔ یوں اقتدار کے اس میوزیکل چیئر کے کھیل میں مقتدرہ مستقل ایک اہم فریق کے طور پر کھیل میں شامل رہتی ہے اور اس کا دست شفقت جس سیاسی رہنما؍سیاسی جماعت کے سر پر رہتا ہے،وہ اس کے گن گاتی نظر آتی ہے جبکہ دوسری صرف اس لیے تنقید کرتی نظر آتی ہے ،بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے کہ یہ دست شفقت اس کے سرپر رکھا جائے اور اقتدار کی غلام گردشوں میں اس کا حصہ اسے میسرہو جائے ۔ اس مقصد کے لیے کیا کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں،کیا کیا ڈھونگ رچائے جاتے ہیں،کس طرح عوامی دباؤ (فقط دست شفقت کے حصول کے لیے)بڑھایا جاتا ہے،کس طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جاتا ہے اور اپنی سٹریٹ پاور کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اقتدار میں حصہ نصیب ہو جائے۔بہرکیف مقتدرہ بھی ان سب حربوں سے واقف ہونے کے باوجود،جس طرح شنوائی کرتی ہے،جس طرح پانسہ پلٹا جاتا ہے،وہ اب نہ تو کسی سے پوشیدہ ہے اور نہ ہی عوام ایسے ڈھونگ سے متاثر ہورہی ہے کہ حالیہ تبدیلی حکومت کے بعد جس طرح حقیقی عوامی ردعمل سامنے آیا ہے، وہ پاکستان میں صرف اور صرف بھٹو حکومت کا تختہ گرائے جانے کے بعد چشم فلک نے دیکھا تھا۔ 1977میں عوام بھٹو کو مسیحا سمجھتی تھی جبکہ 2022 میں عوام ہمران خان کو مسیحائی کا درجہ دے رہی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ اس دوران کتنی حکومتوں کا تختہ گرایا گیا لیکن عوام یوں سڑکوں پر نظر نہیں آئی ،حتی کہ بھٹو کی دختر بے نظیر کی حکومتیں گرنے پر بھی عوام اس طرح سڑکوں پر نہیں آئی،جبکہ نواز شریف کی حکومت گرنے پر نواز شریف کو یہ کہنا پڑا کہ مجھے قدم بڑھانے کی مہمیز دینے والے،میرے قدم بڑھانے پر مجھے تنہا چھوڑ گئے۔
یہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور ان حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتاالبتہ اس دوران بھٹو اور اینٹی
بھٹو کے درمیان منقسم عوام میں ایک نئی سیاسی قوت نے ضرور جنم لیا ہے،جسے بالعموم نئی طاقت سمجھا جاتا ہے تاہم میرے نزدیک پیپلز پارٹی کے وہ لوگ ہیں جو مزاحمت کی سیاست کرتے رہے ہیں لیکن بھٹو کے بعد بالعمو م اور بے نظیر کے بعد بالخصو ص جو سیاست زرداری پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کی ہے،یہ اس کے رد عمل میں تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں ۔ علاوہ ازیں! عمران خان کی ذاتی جدوجہد کا حصہ اس میں ضرور شامل رہا ہے کہ جس میںعمران نے اپنی سحر انگیز شخصیت کی بدولت نوجوان طبقے کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے،جو اس وقت تحریک انصاف کا ہروال دستہ ہے اورازخود سڑکوں پر نکلتا ہے۔اس وقت پاکستانی سیاست میں عمران خان اپنی حیثیت تسلیم کروا چکا ہے اور اس کے بغیر پاکستانی سیاست نامکمل تصور ہوتی ہے،کسی بھی سیاسی عمل میں تحریک انصاف؍ عمران کی عدم موجودگی اس سیاسی عمل کی حیثیت کو مشکوک ہی کرے گی جبکہ دوسری طرف عمران مخالف تیرہ،چودہ جماعتوں کی بھرپور کوشش یہی ہے کہ کسی بھی طرح عمران کو پاکستانی سیاسی منظر نامے سے نکال باہر کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے اولاً عمران کے خلاف جہاں اس کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایاگیا وہیں اس کے کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن عمران ڈٹا رہا اور ابھی تک ڈٹا ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اسے صادق و امین ،گو کہ یہ لقب فقط سرکار دو جہاں ؐ کے لیے ہی موزوں ترین ہے، قرار دینے پرمخالفین نے جو نشتر زنی کی،وہ بھی عمران کی مقبولیت کو گہنا نہ سکی اور اس وقت وہ مقبول ترین سیاسی قائد ہے۔
سپر یم کورٹ نے جس سیاق و سباق میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا تھا،اس کے خلاف عمران ہی کے اولین ساتھی ایس اکبر بابر نے الیکشن کمیشن میں فنڈز کے حوالے سے ایک درخواست دائر کررکھی تھی کہ تحریک انصاف کے فنڈز کے معاملات اتنے شفاف نہیں ہیں اورتحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے بیشتر اثاثہ جات چھپائے ہیں،ایسے فنڈز بھی اکٹھے کئے ہیںجن کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ایس اکبر بابر کی یہ درخواست کئی سال تک الیکشن کمیشن میں زیر سماعت رہی ہے اور چند گھنٹے پہلے ہی الیکشن کمیشن نے اس درخواست پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ،جس میں الیکشن کمیشن نے واضح طور پر یہ کہا کہ تحریک انصاف نے فنڈزکے حصول میں قوانین کو مد نظر نہیں رکھا البتہ جو فنڈنگ تحریک انصاف کو ہوئی ہے اس میں ’’ممنوعہ فنڈنگ‘‘کا ذکر کیا گیا ۔ ممنوعہ فنڈنگ سے کسی بھی طرح سیاسی جماعت پر قدغن لگانے کا جواز نہیں بنتا البتہ قوانین کے مطابق ایسی فنڈنگ کو الیکشن کمیشن ضبط کر سکتا ہے،سیاسی جماعت کو جرمانہ کیا جا سکتا ہے لیکن سیاسی جماعت کی سیاست کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں دوسری اہم بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ فنڈز کے حوالے سے جو بیان عمران خان نے الیکشن کمیشن کو جمع کروایا ہے،اس کے مطابق عمران خان نے حقائق چھپائے ہیں لہٰذا آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت ان کی نااہلی پر عمل کیا جا سکتا ہے،جو موجودہ حکومت سے بعید بھی نہیں کہ جلد بازی میں نا اہلی کا عمل شروع کر دے۔ دوسری طرف عمران خان یقیناً اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے اور زیادہ امکان یہی ہے کہ ان کا مؤقف ہو گا کہ چونکہ اس وقت تک دیگر اکاؤنٹس نہیں کھلے تھے یا جو بھی ہو،اس لیے ان اکاؤنٹس کی معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم نہیں کی گئی لہٰذا اس بنیاد پر انہیں قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،بہرکیف دیکھتے ہیں کہ یہ قانونی جنگ کیا رخ اختیار کر تی ہے۔ یہاں الیکشن کمیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو مد نظر نہیں رکھا اور فقط تحریک انصاف کے خلاف فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا
فیصلہ تھا کہ دیگر سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی فنڈنگ پر بھی الیکشن کمیشن اپنی تحقیقات مکمل کرے اور تینوں جماعتوں کا فیصلہ اکٹھا سنائے،اس پر تحریک انصاف کیا کرتی ہے،اس کا فیصلہ آئندہ چند روز میں ہو جائیگا۔ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے ابراج گروپ کی جانب سے کی گئی فنڈنگ ہی زیادہ زیر بحث ہے کہ اس گروپ کی طرف سے ہی زیادہ فنڈنگ ہوئی ہے اور دوسری طرف ہمیشہ کی طرح ایسے گروپس تمام سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کرتے ہیں،اس لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کو بھی ابراج گروپ کی جانب سے فنڈنگ کئے جانے کا انکشاف ہو چکا ہے۔ تاہم یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صرف تحریک انصاف ہے کہ جس نے اپنے فنڈز کے حوالے سے ایک منظم طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے پاس اس کا منظم ریکارڈ ہی موجود نہیں۔
قانونی کارروائیوں میں عمران کے مخالفین بالعمو م اور مریم نواز بالخصوص ایک ہی راگ الاپ رہی ہیں کہ عمران خان ’’لاڈلا‘‘ ہے اور سارے فیصلے اس کے حق میں آتے ہیں جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں ،عمران خان اگر ’’لاڈلا‘‘ ہوتا تو اس کی حکومت کیوں جاتی؟سپریم کورٹ قانون کے مطابق اس کی حکومت کے خلاف فیصلہ کیوں دیتی؟عمران نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا لیکن اپنی قانونی چارہ جوئی کو ترک نہیں کیاجبکہ مریم نواز بذات خود سزا یافتہ ہونے کے باوجود نہ صرف ایک ایسے جواز پر آزاد ہیں کہ جو ملک میں موجود ہی نہیں،پھر بھی ’’لاڈلا‘‘ عمران خان ہے،ایک کھلا تضاد ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ’’لاڈلوں ‘‘ کی ایک فوج ظفر موج ہے جو قوانین کو پرکاہ کی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں لیکن مخالفین پر اتنا کیچڑ اچھال رہی ہے کہ ان کا اپنا’’لاڈلا پن‘‘ چھپ جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button