Ahmad NaveedColumn

پنجاب ،پاکستانی سیاست کی لائف لائن ۔۔ احمد نوید

احمد نوید

عمران خان کمزوریوں ، بے اعتباریوں ، الزام تراشیوں اور اَن گنت غفلتوں کے باوجود پنجاب کا ضمنی الیکشن جیت گئے ہیں اور اِس انہونی کو سیاسی تجزیہ نگار سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں پاکستان مسلم لیگ نون اپنے ہارنے پر ششدر تھی وہاں پی ٹی آئی خود اپنے جیتنے پر حیرت زدہ تھی ۔ اس الیکشن سے قبل اکٹھے کئے جانے والے اعدادو شمار ، تبصرے ، تجزیے ، حقائق ، سروے ، نظریے ، حلقوں کی سیاسی وابستگیاں ، اثرو رسوخ ، تعلقات ، برادریوں کے جوڑ توڑ سب کچھ رقم طراز تھا کہ پنجاب کا یہ ضمنی الیکشن نون لیگ اکثریت کے ساتھ جیت جائے گی اور اگر اس ضمنی الیکشن میں اپ سیٹ ہوا بھی، تو بھی نون لیگ بارہ نشستوں کو باآسانی جیت جائے گی ۔

پی ٹی آئی اگر بہت بڑا معرکہ دکھانے میں کامیاب ہوئی تو بھی اُن کے حصے میں دو سے تین آزاد امیدوار نکال کر پانچ سے چھے سیٹیں آئیں گی۔ 17جولائی کی شب جب ضمنی انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے ، تو گیم چینج ہو چکی تھی ۔ جتنی سیٹیں پی ٹی آئی کے حصے میں جانے کی توقع کی جارہی تھی ، اُس سے بھی کم سیٹیں نون لیگ کو ملی اورجو اعدادو شمار اور سروے نون لیگ کو 15کے لگ بھگ سیٹیں جتوا رہے تھے ، وہ پاکستان تحریک انصاف کامقدر بن گئیں ۔

پنجاب کے ضمنی الیکشن میں اتنا بڑا اپ سیٹ کیوں اور کیسے ہوا؟ پی ٹی آئی نے نون لیگ کو خاک چٹا دی اور سیاسی تجزیہ نگار جو یہ اندازے لگائے بیٹھے تھے کہ پی ٹی آئی اپنی پوزیشن اور وقعت کھو بیٹھی ہے اب وہ یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن پر میدان میں آکھڑی ہوئی ہے۔سارے گمان، سارے تجزیے ، سارے نظریے ملیا میٹ ہو گئے اور حلقے کی سیاست جیت گئی ۔ پنجاب کے اس ضمنی الیکشن نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ حلقے کی سیاست آج بھی زندہ ہے ۔ آنے والے اگلے کئی ہفتوں تک پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں ضمنی انتخابات میں شکست پر نون لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ ، خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق نے رپورٹ پیش کی ۔ اُس میں بتایا گیا کہ مسلم لیگ نون نے جن امیدواروں کو ٹکٹ دیا وہی عبرت ناک شکست کا باعث بنے۔ وہ تمام امیدوار موزوں امیدوار نہیں تھے۔ مزید یہ کہ حلقے اور مسلم لیگ نون سے وابستہ وہ پرانے مسلم لیگی جنہیں نون لیگ نے الیکشن ٹکٹ نہیں دیا ، وہ پی ٹی آئی سے ٹکٹ لے کر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے ۔ اس رپورٹ میں نون لیگ کی شکست کی دوسری اہم ترین وجہ یہ بیان کی گئی کہ نون لیگ کے رہنما الیکشن والے دن اپنے ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں ناکام رہے جبکہ اس الیکشن کے ہار کی تیسری وجہ مہنگائی تھی ۔

اس رپورٹ کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم دوبارہ ضمنی انتخابات اور پی ٹی آئی کی جیت کے بعد عمران خان کی پوزیشن پر آئیں تو حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پاکستان کے مقبول ترین رہنمائوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر موجود ہیں ۔ اب اگر کوئی عوام سے یہ پوچھے کہ عمران خان حکومت کی تین سالہ دور حکومت کی کامیابیوں کو گنوا دیں تو پی ٹی آئی کے پاس دکھانے ، بتانے اور گنوانے کیلئے کچھ نہیں لیکن اس کے باوجود عوام اُن کے ساتھ ہے۔سابق وزیرخزانہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملکی تاریخ کے مجموعی قرضوں کا 76فیصد قرضہ لیا۔ شیخ رشید صاحب نے کہا کہ ہم عوام کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے تھے۔ غرض کہ عوام اس وقت پی ٹی آئی کے منشور کے حوالے سے کوئی بھی سوال عمران خان سے پوچھنے کی خواہش مند نہیں ۔ ایک کروڑ نوکریاں ، لاکھوں لوگ جو بے روزگار ہوئے،پچاس لاکھ گھر، پولیس کے شعبے کی اصلاحات ، لوگوں کو کسی چیز سے غرض نہیں ۔ حتیٰ کہ اب وہ عمران خان کے نئے بیانیے غلامی منظور نہیں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں ۔

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت نے حالات دوبارہ عمران خان کے حق میں کر دئیے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد سے اب تک عمران خان اداروں کو بہت کچھ کہتے آئے ہیں ، وہ خفیہ ایجنسیوں پر بھی الزام لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ وہ چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں ۔ ان حالات میں اور ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد کیا الیکشن کمیشن اتنی جرأت دکھائے گا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ میرٹ پر کر سکے۔ یہ فیصلہ الیکشن کا بہت بڑا امتحان ہے ۔ امتحان میں اب صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ پوری پی ڈی ایم ایک بہت بڑے امتحان میں پھنس چکی ہے ۔ ڈالر کی اڑان رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اتحادی حکومت کہہ چکی ہے کہ الیکشن مقررہ وقت پر ہونگے اور ہم عوام کو ریلیف دیں گے۔پاکستان مسلم لیگ نون اپنی سیاسی تاریخ کے بہت بڑے دوراہے پر آن کھڑی ہے ۔ وہ بوتل سے نکلے مہنگائی کے جن کو قابو کرنے میں جہاں ناکام دکھائی دے رہی ہے، وہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہر طرح سے فائدے میں ہے اور عین ممکن ہے مستقبل میں وہ عمران خان کی اتحادی بن جائے ، کیونکہ زرداری صاحب مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ۔

اگر دیکھا جائے تو عمران خان کی گرتی ،لڑ کھڑاتی، رینگتی حکومت کو گھر بھیجنے میں مسلم لیگ نون کے کچھ رہنما خواہش مند نہیں تھے۔ اُن میں مریم نواز اور خود نواز شریف سرفہرست تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس حکومت کی نااہلیوں کا ملبہ اپنے اوپر ڈالا جائے ، مگر شہباز شریف اور حمزہ شہاز ، مریم نواز اور نواز شریف کی دور اندیشی کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔ آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کے کہنے پر ڈیڑھ سال مزید صبر کر لیا جاتا تو حالات آج یہ رُخ اختیار نہ کرتے ۔ اگلا ایک سال نون لیگ کیلئے مزید سختیاں اور تلخیاں لیے کھڑا ہے ۔ اگر ایک سال میں ڈالرنیچے نہ آیا ۔ مہنگائی بھی کم نہ ہوئی اور نون لیگ کی گرتی ہوئی ساکھ بھی ری سٹور نہ ہوئی تو نواز شریف کی پارٹی کا کیا انجام ہوگا۔ میں رانا ثنااللہ سے بہت حد تک متفق ہوں کہ انہوں نے پنجاب حکومت لینے کیلئے پی ٹی آئی کے 20اراکین کو ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ تمام اراکین حلقے کے ووٹروں کی جانب سے مسترد کر دئیے گئے۔

لہٰذا امیدواروں کے درست چنائو نہ کرنے کی وجہ سے نون لیگ کا ووٹ بنک متحرک نہیں ہوا۔ اگر مسلم لیگ نون نے مستقبل میں بھی ایسے ہی غلط فیصلے کیے اور صرف وقتی فائدے کو دیکھا تو عمران خان مزید مضبوط اور طاقتور ہوں گے ۔ پنجاب کا صوبہ پاکستانی سیاست کی لائف لائن ہے ۔ جو پنجاب پر راج کرے گا، مرکز میں اُسی کی حکومت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button