ColumnImtiaz Ahmad Shad

جھوٹ کا بیوپار .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:اگر تم میری چھ باتوں پر عمل کر لو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ایک یہ کہ جب بات کرو تو جھوٹ نہ بولو۔ دوسری یہ کہ وعدہ کرو تووعدہ خلافی نہ کرو۔تیسری یہ کہ امانت میں خیانت نہ کرو۔چوتھی یہ کہ بری نگاہ سے کسی کو نہ دیکھو۔پانچویں یہ کہ کسی کو تکلیف نہ دو۔چھٹی یہ کہ شرمگاہ کی حفاظت کرو۔زندگی کو خوبصورت بنانے کیلئے اس سے واضح اور کوئی پیغام ہو نہیں سکتا۔مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جھوٹ ہماری زندگیوں میںاس قدر داخل ہو چکا کہ سچ کیلئے کوئی گنجائش ہی نہیں بچی۔حالانکہ 2لفظوں پر مشتمل لفظ ’’سچ‘‘ وہ چیز ہے جو اپنے اندر وسیع طاقت رکھتا ہے مگر اسے کہتے ہوئے آج بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ بعض اوقات انسان اسے بولنا بھی چاہے تو کئی مصلحتوں کا شکار ہو کر نہیں بول پاتا۔ بے صبر اور جلد باز کبھی سچ نہیں بول سکتا کیونکہ اسے کہتے ہوئے بہت صبر اور ضبط کا دامن ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے۔

پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمیشہ سچ کی جیت ہوتی ہے مگر آج اس ماڈرن دور میں یہ سب الٹ ہو چکا ہے ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ سچ ہمیشہ جیتتا رہا ہے۔ چاہے دیر سے ہی سہی۔ سچ کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے کہتے ہوئے کبھی خوف نہیں آتا ۔بعض اوقات تو سچ کہنے سے ڈرایا جاتا ہے کہ ایسا کرو گے تو یہ ہوجائے گا کیوں اپنی جان پر سچ بول کر مصیبت مول لے رہے ہو؟ خاموش رہو۔اکثر لوگ اس طرح کے جملے کہہ کر سچ کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سچ تو سچ ہوتا ہے وہ کسی بھی روپ میں کبھی نہ کبھی سامنے آکر ہی رہتا ہے۔ ہر شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کی اولاد پر اعتماد بنے، معاشرے میں نیک نامی کا سبب بنے ،اپنے ماحول میں سب سے نمایاں دکھائی دے مگر وہی شخص اسی اولاد کو ماحول اس کے برعکس دیتا ہے جس میں جھوٹ کا بیوپار عام ہوتا ہے اور چھینا جھپٹی کی تعلیمات واضح ہوتی ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی نسل کو دوسروں سے بہتر کریں توہمیں چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو پراعتماد بنائیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم انہیں سچ کی اہمیت سے آشنا کریں اور سچ کا سامنے کرنے کے گر سکھائیں۔ یہ ایک سچی حقیقت ہے کہ سچ کی زندگی ہمیشہ ہوتی ہے جبکہ جھوٹ کی چند روز کی ہوتی ہے۔ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے اسکا اندازہ جھوٹ بولنے والے کی بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کیونکہ جب وہ سچ یا حقیقت بیان کرتے ہوئے ڈرتا ہے تب ہی وہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے یا اگر وہ غلطی پر ہوتا ہے اور اپنی غلطی کی پردہ پوشی کرنے لگتا ہے تب وہ اس حوالے سے جھوٹ کی کوشش کرتا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ جس دن سامنے آتا ہے اس کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی ہے اور اگر ساتھیوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجائے تو آئندہ کیلئے اعتبار بھی جاتا رہتا ہے۔ یہ دنیا تا قیامت رہے گی، قیامت نے آنا ہے، ہم سب کو اس مالک حقیقی نے پیدا کیا ہے اور اسی رب کی جانب لوٹ کر جانا ہے یہ سچی حقیقت ہے اگر اسے ہم پس منظر کے طور پررکھیں تو ہمیں کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوگی مگر کچھ لوگ دنیا کی چند روزہ زندگی میںاپنے آپ کو دوزخ کے عذاب میں گرفتار کرانے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جو سراسر غلط اور خسارے کا سودا ہے۔

سچ اور جھوٹ کی پہچان آج کے معاشرے میں یوں تو کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ اس ڈھٹائی اور تکنیک سے جھوٹ بولتے ہیں کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آپ محسوس کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں کہ جھوٹ بولتے وقت انسان کبھی بھی سامنے والے سے آنکھیں نہیں ملا پائے گا کیونکہ اس کا اندراسے لتاڑ رہا ہوگا کہ یہ تم کیا کررہے ہو اور وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش میں آنکھیں نیچے کر جاتا ہے۔ہم آج اپنے بچوں کو شروع سے یہ تربیت تو دیتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے سچ کا ساتھ دینا چاہیے مگر حقیقی زندگی میں ہم اس کے الٹ ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔
آج درس و تدریس ہو ،واعظ و نصیحت ہو، سیاست ہو ،صحافت ہو،انصاف ہو ، کاروبار ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہم جھوٹ کو اس حد تک اپنے روزمرہ معمولات میں شامل کئے ہوئے ہیں کہ ہمیں خود بعض اوقات پتا نہیں ہوتا کہ ہم یہ سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ۔ جس کا سراسر نقصان ہمیں ہی ہورہا ہوتا ہے۔یہ بات ہمیں معلوم ہے جھوٹ سے ہمیں منع کیا گیا ہے مگر ہم پھر بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔اصل وجہ یہ ہے کہ ہم سب جھوٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ہمارے کان اب سچ سننے کے عادی ہی نہیں رہے۔ اس لیے ہمیں اگر کبھی غلطی سے سچ سننے کو مل جاتا ہے تو کانوں کو برا بھی لگتا ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ سچ کو کہنا اور برداشت کرنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں اور یہی آج کی کڑوی سچائی ہے۔ ہم نے اپنی زندگی کو جھوٹ کے جال میں آج اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اگر سچ کہیں کونے کھدرے سے اندر گھس آتا ہے تو ہماری زندگی پریشانی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے 99فیصد لوگ ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے کم از کم ایک بار تو جھوٹ ضرور بولتے ہیں جبکہ انہیں چاہیے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ بولیں اور اپنے آپ کو اعتماد دیں۔ آج ہم میں اور ہمارے بچوں میں جو اعتماد کی کمی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ سچ نہ بولنا ہے۔ ہمارے معاشرے کے جید لوگ جس طرح اپنی ناک اونچی رکھنے اور کاروبار زندگی کو اونچے سے اونچا کرنے میں جس حد تک جھوٹ بولتے ہیں اس سے شاید وہ وقتی طور پر توکامیابی حاصل کرلیتے ہیں مگر جب یہی سچ ان سے بولے گئے جھوٹ کا حساب لیتا ہے تو وہ کہیں کے نہیں رہتے اور معاشرے میں رہا سہا مقام بھی ختم ہوجاتا ہے۔

شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے ۔آج ہمارے معاشرے میں بہت سے معزز لوگ بھی اپنی زندگی جھوٹ کے سرکل میں قائم رکھے ہوئے ہیں اور جیسے ہی انہیں حقیقت کی ہلکی سی ٹھوکر لگتی ہے وہ کہیں کے نہیں رہتے اور پستیوں میں جاگرتے ہیں جو انکا مقدر ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں جھوٹ کی ایسی لت پڑ گئی ہے کہ راہ چلتے یا کسی پروگرام میں کسی نمایاں قد آور شخصیت سے سامنا ہو جائے تو گرد و نواع پر رعب جھاڑنے کے لیے اس شخص سے تعلقات کے قصے اور کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیںاور اس تواتر کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ پھر عمر کے ساتھ یہ عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ جھوٹ سے بچیں کیونکہ جھوٹ کبھی سچ نہیں بن سکتا جبکہ سچ اٹل حقیقت ہے جسے بدلا نہیں جاسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button