CM RizwanColumn

رئیل اسٹیٹ بزنس مایوسی کا شکار ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

مالی سال 2023-2022 کے وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے ریونیو تخمینے کا ہدف 7 ہزار 4 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو عاصم احمد نے مالی سال 23-2022 سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے تین اہم نکات بشمول براہ راست ٹیکسز، ریلیف ترجیح اور ٹیکس کلیکشن ہیں جن میں اضافہ کرنا ہمارا اولین ہدف ہے۔ تاہم نان فائلرز کیلئے سخت اقدامات کیے گئے۔ عاصم احمد نے بتایا کہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 7 ہزار 4 ارب جب کہ 355 ارب روپے نئے ٹیکسز کی تجویز تھی۔رئیل اسٹیٹ، فارم ہاؤس، غیر استعمال شدہ رہائشی، کمرشل اور انڈسٹریل پلاٹس پر ٹیکس عائد ہوگا جب کہ زائد آمدنی والوں پر بھی ٹیکس لگے گا۔ مزید یہ کہ ایک پلاٹ پر ٹیکس چھوٹ دی جائے گی لیکن ڈھائی کروڑ کی مالیت کے دوسرے پلاٹ پر پانچ فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صاحب حیثیت افراد کی دولت کا بڑا حصہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں موجود ہے، یہ دو دھاری تلوارہے، اس سے ایک طرف غیر پیداواری اثاثے جمع ہوتے ہیں اور دوسری طرف غریب اور کم آمدنی والے طبقوں کیلئے مکانات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں لہٰذا اس عدم توازن کو درست کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ افراد جن کی ڈھائی کروڑ مالیت کی غیر منقولہ جائیداد موجود ہے اس پر فیئر مارکیٹ ویلیو کے 5 فیصد کے برابر فرضی آمدن یا کرایہ تصور کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پراپرٹی کی فیئر مارکیٹ ویلیو کے ایک فیصد ٹیکس کی شرح مؤثر ہوگی۔ تاہم ہر کسی کا ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوگا۔

موجودہ حکومت کے ان اقدامات پر پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے افراد اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کو شدید تحفظات ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ چوہدری اختر علی عباس سی ای او اسٹیٹ 166اور انجینئر عبد القدیر نے راقم کو ایک ملاقات میں بتایا کہ ان ناجائز اور بے سروپا ٹیکسوں کی وجہ سے ان کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شعبہ کو تباہ ہونے سے بچایا جائے کیونکہ حالیہ بجٹ میں نافذ کیے گئے بے جا ٹیکسوں سے رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بدحالی کا شکار ہوگیا ہے، ان کا کہناہے کہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں نے ان بے جا ٹیکسوں کی وجہ سے مزید سرمایہ کاری یکسر روک دی ہے جس کی وجہ سے ملک میں آنے والے زرمبادلہ میں کمی اورلاکھوں افراد کا روزگار دائو پر لگ گیا ہے، ان کا موقف ہے کہ کیپٹل گین ٹیکس کی مد میں اضافے سے سرمایہ کاری کرنے والے افراد شدید بے چینی کا شکار ہیں، ڈیمانڈ رینٹل ٹیکس ایک ظالمانہ فیصلہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جو عمارت ابھی بنی ہی نہیں اس پر ٹیکس کا نفاذ سمجھ سے بالا تر اور اس شعبے کو تباہ کرنے کے مترادف ہے، یہی وجہ ہے کہ اس
حکومتی فیصلے سے رئیل اسٹیٹ سے وابستہ 70 دیگر انڈسٹریز کا مستقبل بھی دائوپر لگ گیا ہے،

حالانکہ رئیل اسٹیٹ سے وابستہ افراد ایک عرصے سے رئیل اسٹیٹ کو انڈسٹری کا درجہ دینے کیلئے حکمرانوں سے مطالبہ کررہے تھے، اس مطالبہ پر تو آج تک کسی حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگی مگر ٹیکس عائد کرتے وقت رئیل اسٹیٹ کا شعبہ سب سے زیادہ متاثر کر دیا گیا ہے۔ ملک بھر کے ڈویلپرز اور بلڈرز بھی اس پر سراپا احتجاج ہیں ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ میں رئیل اسٹیٹ کے شعبے پر نافذ کیے جانے والے ٹیکسوں پر نظرثانی کرکے اس شعبے کو تباہی اور لاکھوں افراد کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچایا جائے۔

نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں بھی پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس حاصل کرنے کی غرض سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے پراپرٹی کی نئی ویلیوایشن کا اطلاق کر دیا تھا۔ اب یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پراپرٹی کی ویلیوایشن ہوتی کیا ہے۔ آسان الفاظ میں بات کریں تو پراپرٹی ویلیوایشن کا مطلب غیر منقولہ جائیدادوں کی حکومت کی جانب سے قیمت کا تعین ہے۔ پاکستان میں طویل عرصے تک غیر منقولہ جائیدادوں کی قیمت کا تعین محکمہ مال کرتا رہا ہے۔ پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے اسے ڈی سی ریٹ بھی کہتے ہیں۔ نواز شریف دور حکومت میں ہی ایف بی آر پراپرٹی کی ویلیوایشن کی جانب آیا جبکہ اس سے قبل محکمہ مال ہی پراپرٹی کی قیمتوں کا تقرر کرتا آیا تھا اور اب بھی دونوں ادارے یہ کام کر رہے ہیں۔ کہیں محکمہ مال کی ویلیوایشن چلتی ہے تو کہیں ایف بی آر کی ویلیوایشن لاگو ہوتی ہے۔

جولائی 2019 کے ویلیوایشن ایس آر او کو بحال کرنے کا فیصلہ ہوا تو ایف بی آر کو ہدایت کی گئی کہ نئی ویلیوایشن مقررہ وقت میں کی جائے اور اس میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے جیسے ہی پراپرٹی کی ویلیوایشن کا فیصلہ آیا تو پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ تب بھی حکومت کا بنیادی مقصد اس کے ذریعے ٹیکس میں اضافہ کرنا تھا لیکن اس کیلئے حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلتی اور پراپرٹی سے وابستہ لوگوں کے مطالبات اور تجاویز کے بعد محکمہ مال کے تعاون سے اگر ویلیوایشن کی جاتی ہے تو بات سمجھ میں بھی آتی لیکن ایف بی آر نے بغیر کسی فارمولے کے زمینوں کی ویلیوایشن کی جس سے رئیل سٹیٹ سے وابستہ انڈسٹری کے لوگوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی جس کی وجہ سے وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس سے قبل محکمہ مال پراپرٹیز کی جانچ پڑتال کر کے ان کی قیمت کا تعین کرتا تھا پھر ایف بی آر نے بغیر کچھ دیکھے ویلیوایشن دگنی کردی اور بعض جگہوں پر تو پانچ سو گنا بھی بڑھا دی۔ بغیر دیکھے ہی افسروں نے دفاتر میں بیٹھ کر یہ کام کیا جس کی وجہ سے مارکیٹ پر انتہائی برا اثر پڑا۔ اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں اگر پلاٹ کی قیمت پانچ کروڑ تھی تو حکومت نے اسے پانچ گنا بڑھا کر یک دم پچیس کروڑ کردیا۔ ظاہر ہے جب اتنی زیادہ قیمتیں بڑھیں گی تو لوگ سرمایہ کہاں سے لائیں گے اور اس سے پراپرٹی کا کاربار بھی متاثر ہو گا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب اتنے سخت معاشی حالات میں پورا پاکستان بند پڑا ہے صرف پراپرٹی کا کاروبار ہی ایک ایسا بزنس ہے جو چل رہا ہے اور حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے بھی اکٹھے کر کے دے رہا ہے اور اگر ایک دم اس پر بم گرا دیا جائے تو لوگ اس کاروبار سے بھی بدک جائیں گے اور اپنا سرمایہ اس انڈسٹری سے نکال کر گھروں میں رکھنے یا باہر کے ممالک میں لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ کنسٹرکشن انڈسٹری کی مدد سے ملک میں انقلاب برپا کردیں گے، پچاس لاکھ نئے گھر بنائیں گے۔اس کیلئے حکومت کو پراپرٹی کے کاروبار پر قدغن لگانے کی بجائے انہیں سہولتیں دینی چاہیے تھیں جبکہ ہوا اس کے برعکس۔ اب موجودہ حکومت بھی قریباً اسی پالیسی پر گامزن ہے اور اس شعبے کے لوگوں میں ایک بار پھر بے چینی اور اضطراب پایا جارہا ہے۔

موجودہ حکومت کو پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے ساتھ مشاورت کرنا ہوگی اور اس مسئلے کا کوئی حل نکالنا ہوگا۔ اگر اس طرح کے فیصلے کیے گئے تو لوگ ٹیکس نہیں دیں گے اور اگر پراپرٹی سے وابستہ لوگ ٹیکس نہیں دیں گے یا کاروبار نہیں کریں گے تو حکومت کی معاشی حالت مزید پتلی ہو جائے گی۔ اس لیے ایف بی آر اور ان سے متعلقہ افراد کو پراپرٹی سے وابستہ لوگوں کے مطالبات پر کان دھرنا ہو گا اور کوئی ایسا فیصلہ کرنے سے گریز کرنا ہو گا جس سے ملک میں کاروباری انارکی پھیلے۔ ملک معاشی طور پر پہلے ہی کمزور ہے اور اس طرح کے اقدامات اسے مزید پستی کی جانب لے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button