Columnمحمد مبشر انوار

ففتھ جنریشن وار .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں،لوقت بدلنے کے ساتھ ساتھ زندگی کا طریقہ کار بدل گیا لیکن نہیں بدلی تو انسانوں کی ہوس نہیں بدلی،وہ آج بھی ویسی کی ویسی ہے البتہ اس کے حصول کا طریقہ بدل گیا۔ ٹیکنالوجی میں ترقی نے اقوام کو سہل پسند بنا دیا اور زیادہ خطرات کی بجائے سادہ ترکیبوں سے مخالفین کو زیر کرنے کی تدابیر سامنے آئی ہیں کہ جن سے براہ راست ملوث ہوئے بغیر بھی بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔دنیا آج بھی طاقتور کے سامنے جھکتی نظر آتی ہے تو نئی ابھرتی ہوئی طاقتیں موجودہ طاقتوں کی حیثیت کے لیے مسلسل خطرہ بنتی ہیں ۔ میدان جنگ کی جہتیں بدل چکی ہیں اور حتی المقدور کوشش یہی ہوتی ہے کہ براہ راست میدان جنگ میں اترنے کی بجائے پس پردہ رہتے ہوئے ،اپنے مقاصد حاصل کئے جائیں۔

ترقی پذیر دنیا میں بالعموم جبکہ مسلم دنیا میں بالخصوص نہ صرف جاسوسوں کو گھسایا جاتا ہے بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اہم ترین مناصب پر اپنے پروردہ لوگوں کو رکھا جائے،جن کاکام جی حضوری سے زیادہ نہ ہو ،ذاتی مفادات کے غلاموں کو مسند اقتدار پر بٹھایا جائے تا کہ ان سے لین دین آسان ہو سکے۔مقبول قیادت یا ملکی مفادات کاتحفظ کرنے والی قیادتوں کو اقتدار سے دور ہی رکھا جائے اور اس ضمن میں ہر وہ حربہ اختیار کیا جائے کہ جس سے ان قیادتوں کی کردار کشی کا عمل جاری و ساری رہے اور عوام ان سے متنفر ہو۔قدیم زمانے میں بھی دشمن کو کمزور کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے رہے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی کہ جنگ سے قبل ہی کسی طرح دشمن کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ میدان جنگ میں مقابلے کے قابل نہ رہے،اس ضمن میں افواہ سازی کے علاوہ معاشی کمزوری بھی شامل رہی تو کہیں دلیر، بہادر و نڈر دشمن کو اس کے حامیوں کو خرید کر ،اجتماعی طور پر مخالفین کو زہرخورانی یا کئی دیگر ہتھیار استعمال کئے جاتے رہے۔ ان سب کے علاوہ جو سب سے اہم نفسیاتی ہتھیار استعمال کیا جاتا وہ بالعموم لشکر اور عوام کے درمیان بداعتمادی پیدا کرکے یا اپنی عددی برتری کا خوف دلا کریا پھر طاقت کے زیر اثر لانے کی کوشش کی جاتی۔نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہونے والے تو میدان جنگ میں جانے سے قبل ہی شکست تسلیم کر لیتے اور بادل نخواستہ اگر میدان جنگ میں نکلنا بھی پڑتا تو ان کی دلیری و شجاعت حقیقی نہ رہتی بلکہ واضح طور پر دباؤ کا شکار نظر آتی اور یوں جنگ میں شکست مقدر ٹھہرتی۔
دور جدید میں نفسیاتی دباؤ کا ہتھیار آج بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنی ہی صفو ں سے مخالفت یا تنقید اس قدر شدید ہوتی ہے کہ لشکروں میں جذبہ مفقود نظر آتا ہے۔ سب سے اہم ہتھیار آج بھی بنیادی طور پر ایک ہی ہے کہ جنگ سے قبل ہی عوام اور فوج کے درمیان اتنی خلیج حائل کردو،اتنی نفرت پیدا کردو کہ فوج بیک وقت دو محاذوں پر برسرپیکار ہو جائے اور ایسی فوج بھلا کیا لڑے گی،جس کی پشت ہی محفوظ نہ ہو۔
بعینہ یہ صورتحال پاکستان میں اس وقت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے کہ ایک طرف فوج سرحدوں پر برسرپیکار ہے تو دوسری طرف اس فوج پر اندرون ملک مختلف اطراف سے شدید اور مسلسل تنقید ہو رہی ہے۔ اس میں سب سے قابل ذکر فوج کا سیاسی کرداریا ملکی سیاست میں مداخلت ہے تو دوسری طرف فوج کو اپنے کاروباری حوالوں سے بھی شدید تنقیدکا سامنا ہے۔ سیاسی مداخلت کے حوالے سے فوجی ترجمان بے شک انکار کرتے رہیں لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی ذی فہم اور تاریخ کا طالبعلم انکار کر ہی نہیں سکتا کہ پاکستانی سیاست میں فوج کا ایک واضح کردار موجود رہا ہے۔ فوجی ترجمان اگر فوجی کے غیر جانبدار ہونے کی بات بھی کریں تو اس کا مطلب ہمیشہ سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر فوج حکومت وقت کے ساتھ نہیں کھڑی تو یقینی طور پر وہ اپوزیشن کی درپردہ حمایت کر رہی ہے،جس کے ثبوت ملکی سیاست میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمیشہ سے لکھا اور کہاجاتا رہا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے موجودہ سیاستدانوں کی اکثریت اسی نرسری سے معرض وجود میں آئی ہے،اور بیشتر اوقات ان میں فیصلے کرنے کی اہلیت آشکار ہو جاتی ہے کہ سیاست میں ان سیاستدانوں کی سوچ کا محور و مرکز فقط ایک ہی جگہ نظر آ تی ہے کہ جدھر اشارہ ابرو ہوا، ان کی حمایت اسی دھڑے کی جانب ہوتی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ملکی سیاسی نظام میں ایسے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی تشکیل کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ جب ضرورت ہو،انہیں استعمال کیا جاسکے۔ اس حقیقت کی طرف آج کل چند سابق فوجی افسران کھل کر ذرائع ابلاغ پر اپنا نقطہ نظر بیان کررہے ہیں اور فوج کے لیے ہزیمت کا باعث بن رہے ہیں لیکن اکثر واوقات اعلی سابق فوجی افسران نے ایسی ویڈیوز کی تردید کی ہے اور ایسے بیانات کو ان سے منسوب کیا ہے جبکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور وہ فوج کے متعلق(اپنے سابق ادارے کے حوالے سے )ایسی کوئی سوچ نہیں رکھتے۔ تاہم آج کل دونام میڈیا میں بہت زیادہ گردش کر رہے ہیں ایک مہدی حیدر اور دوسرے عادل راجہ،اور یہ دونوں احباب بہت کھل کر فوج، اس کے کردار اور بالخصوص موجودہ فوجی قیادت کے خلاف تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات پر ،ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ سابق فوجی ہونے کے ناطے انہیں بخوبی علم ہے کہ دنیا میں کوئی بھی فوج بغیر نظم و ضبط کے چل ہی نہیں سکتی اور پاکستانی فوج تو بالخصوص اپنے اس کردار کے باعث ساری دنیا میں معروف ہے البتہ دشمن کا یہی مقصد ہے کہ کسی طرح بھی فوج کے درمیان ایسے اختلافات کو ابھارا جائے تا کہ اس کا نظم و ضبط بکھیرا جا سکے۔
دوسرا کاری وار جو پاکستانی فوج پر بالعموم کیا جاتا ہے وہ اس کا مختلف کاروباری اداروں کے حوالے سے مبینہ کردار ہے اور سیاستدانوں اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے برملا کہتے ہیں کہ فوج کا کام کاروبار قطعاً نہیں اور جو فوج کاروبار میں مصروف ہو،وہ جنگ نہیں لڑ سکتی ۔ افسوس ہوتا ہے ایسی سوچ پر جو پاکستانی فوج کے متعلق ایسی رائے رکھتے ہیں نہ صرف ایسی سوچ رکھتے ہیں بلکہ اس کو ترویج کرنے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیتے لیکن بھول جاتے ہیں کہ یہی فوج ہے جو کاروباری ادارے چلانے کے ساتھ ساتھ انتہائی کامیابی کے ساتھ ملک میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ دنیا کی واحد فوج جو درون ملک دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف مربوط طریقے سے روبہ کار آئی اور ملک کو ان دہشت گردوں سے نجات دلائی لیکن جو کام سویلین کے ذمہ تھا،وہ اس سے کماحقہ عہدہ برآء نہیں ہو سکے بلکہ شنید اور حالات اس امر کی غماضی کرتے ہیں کہ ان کا کردار کہیں نہ کہیں بہرطور سہولت کاروں کا سا رہا ہے۔دنیا کی وہ فوج کہ جس کے کمیشنڈ افسران اور ایک عام سپاہی کے درمیان تال میل مثالی ہے اور فقط اپنے افسران کے حکم پر کسی بھی کٹھن اور جان لیوا کارروائی میں اترنے سے دریغ نہیں کرتے بلکہ اس فوج کی تربیت ایسی ہے کہ دشمن کے خلاف برسر پیکار آتے ہوئے افسران ہمیشہ سپاہیوں سے آگے نظر آتے ہیں۔ یہ جذبہ ایک طرف تو فوجی نظم کا اظہار ہے تو دوسری طرف اس کے پس پردہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں کہ پاک فوج کا ہر شخص جذبہ شہادت سے لبریز ہے اور اللہ کے حضور اس حالت میں پیش ہونا قابل فخر سمجھتا ہے کہ اس کا استقبال ایک شہید کے طور پر ہو،جس کے لئے دائمی زندگی کا وعدہ اللہ رب العزت نے کر رکھا ہے اور سرکار دوعالمؐجس کے لئے حوض کوثر کا جام لئے منتظر ہیں۔
اس پس منظر میں ایسا پراپیگنڈا یقینی طور پر ناقابل برداشت ہے لیکن ہرچند کہیں کہ نہیں ہے لیکن ہے والی بات ہے کہ خاک میں کہیں نہ کہیں ایسی کوئی چنگاری ہے،جو پاک فوج کے مخالفین کو ایسے پراپیگنڈا کے لیے اکساتی ہے،مجبور کرتی ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ بدقسمتی سے سیاسی قیادت بارہا اپنی نااہلیت ثابت کرچکی ہے اور اس نااہلی کے پیچھے وہ نرسری ہے،جو سیاسی قیادت کو بالغ ہونش نہیں دیتی۔ لہٰذا اس سارے پراپیگنڈے کو صد فیصد ففتھ جنریشن وار سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور فوج کو اپنے کردار کے حوالے سے یقینی طور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button