CM RizwanColumn

عالمی معیشت پر مایوسی اور بدحالی کے بادل .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان
دنیا بھر میں سرمایہ کاروں پر گھبراہٹ طاری ہے۔ عالمی معیشت پر مایوسی اور بدحالی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔اس عالمی معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کا تعین اور اسباب و تفاصیل کا جائزہ ضروری ہے لیکن اگر کوئی ملک یا اس کے بعض سیاسی رہنما اس عالمی آفت کو اپنے سیاسی مخالفین کے کھاتے میں ڈال کرسیاسی پوائنٹ سکورنگ کا سلسلہ جاری رکھیں، تو یہ ان کی اپنی مرضی ہو گی اور کل کلاں جب عام شہری پر یہ حقیقت کھلے گی کہ سیاستدانوں نے عوام کی تقدیر سے کھلواڑ کیا ہے تو پھر سیاسی اشرافیہ کو نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے، حالانکہ سنجیدہ ممالک اور ان کے حقیقت پسند سیاسی زعماء اس سوال کا جواب تلاش کررہے ہیں کہ آیا عالمی معاشی بحران آ رہا ہے یا نہیں۔ اس بات کی توثیق حال ہی میں دنیا میں سرمایہ کاری کے سب سے بڑے فنڈز کے منتظمین کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں آنے والے معاشی خطرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات ہیں۔
آج اربوں ڈالر کے انتظام کے ذمہ دار سیاست دان اس معاملے کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ اقتدار کے اعلیٰ سطحی حلقوں کو عالمی معاشی بحران کا خطرہ لاحق ہے۔ موجودہ حالات میں توانائی، خوراک اور کھاد کی قیمت بڑھنے پر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ہم کس طرح کساد بازاری سے بچ سکتے ہیں۔ ان حالات میں توانائی کی قیمتوں میں دگنے اضافے کا محض خیال ہی اپنے طور پر کساد بازاری کو جنم دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے حال ہی میں منعقدہ ایک عالمی سطح کی تقریب میں زیادہ نرم لہجے( جس میں تشویش کا عنصر واضح طور پر جھلک رہا تھا) کہا ہے کہ ‘افق تاریک ہو چکا ہے، کووڈ 19 وبا کے اثرات، مالیاتی منڈیوں میں ہیجان، موسمیاتی تبدیلی کے مسلسل خطرے، یوکرین میں جنگ اور خوراک کا موجودہ بحران سب اکٹھا ہو گیا ہے جس سے دنیا پر حملہ آور ہونے والی معاشی آفات بھی اکٹھی ہو گئی ہیں۔اپنے الفاظ کا مطلب واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں دنیا کی بڑی معیشتوں کے لیے کساد بازاری کی توقع نہیں لیکن وہ اسے مسترد بھی نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے ڈیووس میں حال ہی میں ہونے والے ایک افتتاحی اجلاس میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، ابھی نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بعید از قیاس ہے مگر اس کے متوازی امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکی کساد ناگزیر نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ روس اور یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے بحیرہ اسود سے کہیں آگے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور دنیا بھر میں معیشت کو سکڑنے سے بچانے کے بارے میں بات ہو رہی ہے، اگرچہ ہم امید کی کرن روشن رکھنا
چاہتے ہیں، اس کے باوجود اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔ ایک خطرہ جو دیگر چیزوں کے علاوہ پچھلی چار دہائیوں میں ہوجانے والی سب سے زیادہ افراط زر ہے کی وجہ سے پرورش پاتا رہا ہے وہ اب سپلائی چین میں رکاوٹوں اور یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے شدید ہو گیا ہے۔
کاروباری اور سیاسی اشرافیہ عالمی معیشت کی اصل صورتحال سمجھنے کے لیے مختلف ٹکڑے جوڑ کر واضح تصویر بنانے کے لیے بے قرار ہیں کیونکہ یوکرین میں جنگ سے افراط زر میں اضافہ مسلسل جاری ہے۔ کساد بازاری یا ریسیشن کیا ہے۔ اس بحث کے درمیان یہ سوال ایک بار پھر زور پکڑ رہا ہے کہ کساد بازاری یا مندی اصل میں ہے کیا؟ بہت سے ماہرین معاشیات تکنیکی مندی کی بات کرتے ہیں، جبکہ مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو مسلسل دو سہ ماہیوں میں گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کمپنیوں کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کرتی ہے کہ کب زیادہ کارکنوں کو رکھنا ہے اور ان کی خدمات حاصل کرنی ہیں یا کم سرمایہ کاری اور اخراجات کم کرنے ہیں اور اپنی افرادی قوت کو کم کرنا ہے۔حکومتیں اسے ایسے فیصلے کرنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں جو ٹیکسوں سے لے کر اخراجات تک ہو سکتے ہیں۔
عالمی بینک یا آئی ایم ایف جیسی بین الاقوامی تنظیمیں عالمی مندی کو ایک ایسا سال سمجھتی ہیں جس میں اوسطاً عالمی سطح پر شہریوں کی حقیقی آمدنی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں جن برسوں میں عالمی معیشت سکڑی ہے ان میں 1975، 1982، 1991، 2009 اور 2020 شامل ہیں۔تضاد یہ ہے کہ اس تازہ ترین مندی میں جب لوگ مشکلات کا شکار ہیں، سٹاک مارکیٹس نے ناقابل یقین حد تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی معیشت کو سب سے بڑا دھچکا کرونا کی وجہ سے پہنچا ہے جس نے گلوبلائزیشن کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ایسے اثرات چھوڑے ہیں جو ابھی دور ہو ہی رہے تھے کہ اسی سال فروری کے اواخر میں روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ علاوہ ازیں ایشیا کی دیو قامت معیشت چین جو تمام عالمی پیداوار کا 19 فیصد ہے۔ تجزیہ کاروں کی نظروں میں اس کی معیشت میں سست روی کا براہ راست اثر باقی دنیا پر پڑے گا۔ ایسا دو اعتبار سے ہو گا، ایک دوسرے ممالک سے اشیا اور خدمات کے خریدار کے طور پر اس کی اہمیت اور بین الاقوامی تجارت کی فراہمی کرنے والی سپلائی کی کڑیوں میں اس کا کلیدی کردار ہے اور دوسرا یہ کہ کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے چین کے کچھ علاقوں میں شدید لاک ڈاؤن ہو گیا تھا جس سے چینی بندر گاہوں میں ٹریفک جام اور کامرس، صنعتوں اور جائیداد کے کاروبار جیسے شعبوں پر منفی اثرات پڑے ، جن کے اثرات اب بھی نظر آرہے ہیں۔ جبکہ کرونا وبا سے پہلے ہی چین رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں مندی سے گزر رہا تھا لہٰذا روس کے حملے سے قبل چین کی ترقی کی پیش گوئی 2022 تک کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو گیا جس سے چین کے لیے ترقی کی توقعات میں مزید کمی آئی۔ دوسری طرف دنیا کی ایک بڑی معیشت اور منڈی امریکہ ہے جس میں آج کل افراط زر زوروں پر ہے جس پر امریکی ذمہ داروں کا موقف ہے کہ جب تک افراط زر قابو میں نہیں ہو جاتا ایجنسی شرح سود میں اضافہ جاری رکھے گی کیونکہ یورپ یوکرین میں بحران سے متعلق ایندھن کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافے سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
طاقت کے عظیم مراکز سے باہر کم ترقی یافتہ ممالک میں خوراک کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں غریب ترین افراد قحط کا شکار ہو چکے ہیں۔ دریں اثنا روزمرہ زندگی کے اخراجات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مرکزی بینک افراط زر کے دباؤ کو روکنے کے لیے شرح سود میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس آفاقی منظر نامے میں پاکستان اور خاص طور پر اس کے غریب عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اور آگے بھی ان کی مشکلات میں مزید اضافے کے خدشات نے سراٹھا لیا ہے۔ ان حالات میں حکومتی طبقے کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہاں کے عوام کبھی بھی خود سے سڑکوں پر نہیں آئے اور اب بھی اگر ان کے لیے خاص اور مفید اقدامات نہ اٹھائے گئے تو وہ آئندہ مہینوں میں کبھی بھی سڑکوں پر آسکتے ہیں اور پھر عوام حقیقی طور پر دمادم مست قلندر کریں گے۔
ماں جیسی مقدس، مطہر اور معتبر ہستی کا متبادل کسی بھی بیٹے کے لیے دنیا میں موجود ہی نہیں۔ اپنی اولاد کی بطن میں پرورشِ سے لے کر قبر تک جتنی خیر خواہ اور مخلص دعاگو ماں ہوتی ہے کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ قارئین راقم الحروف کی عزیز از جان امی جان ان دنوں شدید علیل ہیں۔ آپ سب سے دست بستہ گزارش ہے کہ آپ میری والدہ کی جلداز جلد صحتیابی اور تندرستی کے لیے دعا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کے والدین اور بزرگوں کو صحت و عافیت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button