ColumnNasir Naqvi

حکومت مہمان کہ میزبان؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

افواہوں کا بازار گرم ہے، تحریک انصاف کے صدر عارف علوی کسی طرح بھی حکومت کو مستحکم نہیں ہونے دیں گے۔ حلف انہوں نے مملکت اور قوم سے وفاداری کا اٹھایا تھا لیکن حالات نے کروٹ بدل لی، ان کے قائد عمران خان مشکل میں ہیں، اس لیے انسانی تقاضے ہیں کہ مشکل حالات میں ان کا ساتھ نبھایا جائے کیونکہ مسند صدارت پر بھی انہوں نے بٹھایا تھا، آئین، قانون، جمہوریت اور جمہوری اقدار اپنی جگہ لیکن یہ سب ماضی میں بھی پامال ہوتے رہے۔ ایک مرتبہ پھر ہو جائیں گے تو کون سا پہاڑ گر جائے گا۔ ان خیالا ت کا اظہار ایک پی ٹی آئی ورکر نے انتہائی فخریہ انداز میں کیا اور پوچھنے لگا آپ کیا کہتے ہیں؟
میں نے کہا’’ جناب ہم غیر جانبدار ہیں!
قہقہہ لگا کر بولا’’ اب بھی؟ اب تو پاکستان بلکہ دنیا کے عظیم لیڈر عمران خان نے غیر جانبدار کا مطلب بھی بتا دیا ہے کہ وہ ’’جانور‘‘ ہوتا ہے۔

میں نے صبرو تحمل سے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ میں ’’جانور‘‘ ہی ہوں کم از کم وہ انسانوں کی طرح ایک دوسرے کا دشمن تو نہیں؟
وہ  صاحب فرمانے لگے کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیاجانور تو ایک دوسرے کو لہولہان کر دیتے ہیں جس طرح موجود ہ دور میں غیر جانبداروں نے مصلحت پسندی میں منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اگر ان کے پاس اشرف المخلوقات والی سوچ سمجھ ہوتی تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے۔
میں نے لقمہ دیا کہ اب کیا ہونے والا ہے؟
مسکرا کر بولےحکومت چند دنوں کی مہمان ہے، ہم پاکستانی اور نیشنلسٹ ہیں۔ ہماری حب الوطنی کا امریکہ بہادر نے سازش کر کے امتحان لیا ہے، کپتان پُرعزم ہے، اگر تبدیلی سرکار کو زبردستی چلتا نہ کیا جاتا تو نیا پاکستان پہلے سے بہت مختلف ہوتا، آزاد غلامی کی زنجیروں سے نجات مل جاتی، بڑا ظلم کیا ہے جانوروں نے۔۔ میرا مطلب ہے غیر جانبداروں نے۔‘‘
کہنے لگا کہ اب اچھا نہیں، بُرا ہی بُرا ہے۔ امپورٹڈ حکومت کے بس کی بات نہیں، یہ محب وطن مخلص عمران خان کے خلاف چوروں اور ڈاکوئوں کا ٹولہ ہے، گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اپنی برطرفی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ صدر مملکت کو شیخ خلیفہ النیہان کی تعزیت کے بہانے متحدہ امارات بھیجا جا رہا تھا انہوںنے انکار کر کے بہت بڑی قربانی دی۔ حکومت کا خیال تھا کہ وہ قائم مقام صدر سے پنجاب کے گورنر کی تعیناتی کرا لے گی لیکن صدر کے انکار سے سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ آپ نہیں جانتے۔ حکومت نہیں چل سکتی۔ تبدیلی سرکار کو مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے ساتھ ڈالر کے تگڑے اور روپیہ کی کمزوری کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ بتائیں اب کیوں نہیں ہو رہا؟
میرا جواب تھا ،اچانک ایک ماہ میں تو نہیں ہو سکتا؟
بولے  واہ۔۔ نہیں ہو سکتا۔ کیا خوب کہا آپ نے، ذرا یہ بتائیں کہ عمران خان کے پاس کون سی جادو کی چھڑی تھی کہ وہ تین سالوں میں تیس سالوں کا گند صاف کر لیتا۔ دراصل خان اعظم کو کام اس لیے نہیں کرنے دیا گیا کہ پھر ان چوروں، ڈاکوئوں کی ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جاتی، عمران خان نے امریکہ بہادر کی نہیں سنی اور متحدہ اپوزیشن جی سرکار کا نعرہ لگا کر اس کی جھولی میں گر گئی۔
اچھا یہ تو بتائو کہ اب کیا ہو گا؟
معنی خیزمسکراہٹ کے بعد بولے مہمان گھر جائیں گے۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ اسلام آباد میں کتنا بڑا احتجاج ہونے جا رہا ہے۔ پھر سب الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ حمزہ بھی فارغ ہو گا اور اس کا باپ بھی۔ آپ خود سوچیں اگر حالات ان کے موافق ہوتے تو نواز شریف پاکستان آ جاتے، پوری کابینہ لندن نہ جاتی۔
میں نے کہا پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے ۔ آپ تسلیم کریں یا نہ کریں نواز شریف ان کے قائد ہیں ان کے پاس تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا تجربہ بھی ہے۔
بولے ہاں۔۔ تین بار برطرفی کا بھی۔۔۔
میں بولاکچھ بھی ہے مسلم لیگ نون موجودہ حکومت کی بڑی پارٹی ہے اور نواز شریف اس پارٹی کے قائد۔
کہنے لگے اب لندن پلان پر عمل درآمد ہو گا ۔ ماضی میں بھی لندن معاہدے اور منصوبے بنائے گئے۔ سب کے سب پاکستان کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوئے۔ اب بھی یہ یہ سازش ناکام ہو گی ۔ اگر عمران خان کی کال پر 20سے 25لاکھ افراد آ گئے تو سمجھ لیں انقلاب آئے گا اور عمران خان آئندہ سو سال کے لیے پاکستانی سیاست سے دور نہیں کیے جاسکیں گے۔ ہر گھر سے عمران نکلے گا نہیں، ہر گھر میں عمران ہو گا۔ فی الحال آپ یہ یقین جانئے ۔ عبدالحفیظ شیخ ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے نمائندے پاکستان آ چکے ہیں۔ نگران حکومت بنے گی اور جلد الیکشن ہوں گے اس لیے کہ تمام مسائل کا حل نئے انتخابات ہیں اور آخری بات پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے قوم عمران خان کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرائے گی۔میں تو چلا آپ کو نظریہ فکر دے دیا۔ سوچیں۔ کیا ہونے والا ہے؟
یہی نہیں، مجھے آج تک جتنے کھلاڑی ملے ان کے خیالات ایسے ہی ہیں وہ ہر لحاظ سے عمران خان سے متفق ہیں اور اختلاف پر ناراض ہی نہیں، لڑنے کو پڑتے ہیں۔ اس لیے سیاست کے پہلے اصول رواداری اور برداشت سے کام چلا رہا ہوں۔
میرے تجربے اور اندازے کے مطابق موجودہ حکومت بحرانی کیفیت کا شکار ہونے کے باوجود اپنا پورا وقت ایک سال سے زیادہ عرصہ گزار لے گی۔ پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی۔ بلوچستان میں دوسرے وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے لیے بھی یہی آئینی راستہ اپنایا جا رہا ہے۔ آئینی اور قانونی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جا چکا ہے۔ جبکہ حقیقی پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے۔ آج نہیں تو کل ہمارے سیاستدانوں کو شاید پارلیمنٹ کی اہمیت بھی یاد آ جائے۔ موجودہ بحران سے سبق سیکھتے ہوئے شاید نئے قانون بنائے جائیں اور پرانے قوانین میں ترامیم کی جائیں اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں کیونکہ سب سے بڑا ادارہ پارلیمنٹ ہی ہے جسے اس کی اہمیت نہ دینے کا رواج پڑ چکا ہے۔ پاکستان پون صدی گزار چکا ہے اگر اب بھی ہم پارلیمان کو اس کا حقیقی مقام نہیں دیں گے تو کب دیں گے؟
مہنگائی، بے روزگاری اور کرنسی بحران کا تفصیلی جائزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ مختلف وجوہات کی بناء پر پوری دنیا ان بحرانوں میں مبتلا ہے۔
امریکی شرح سودکے بڑھنے سے بڑے چھوٹے تمام ممالک کی کرنسی گری ہے اور خدشہ ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معاشی صورت حال بدترہو جائے گی اسی لیے ورلڈ بینک نے انتہائی غریب ممالک کی امداد کے لیے 42بلین ڈالرز مختص کر دئیے ہیں۔ ایسے میں حالات کا مقابلہ صرف اور صرف نیشنل ازم اور قومی یکجہتی سے ہی کیا جا سکے گا۔ لہٰذا حکومتوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے آپ اپنا انداز زندگی تبدیل کر لیں، پاکستانی بنیں اور صرف پاکستانی اشیاء کا استعمال کریں، برانڈڈ اور ولایتی اشیاء ضروریہ چھوڑ کر دیسی چیزوں کا استعمال شروع کر دیں کیونکہ وزراء اور ممبران اسمبلی کی عیاشیاں نہ عمران بند کر سکے اور نہ ہی شہباز شریف کے بس کی بات ہے۔ اس بات کا بڑا ثبوت عمران خان کے اعلان کے باوجود گورنرہائوسز،وزیراعلیٰ اور وزیراعظم ہائوس پبلک سروس کے لیے استعمال نہ ہو سکے
لہٰذا گاڑیاں، مال مویشی فروخت کر کے ہیلی کاپٹر استعمال کرنے سے انقلاب کبھی نہیں آسکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ حکومت مہمان ہے، چلی جائے گی تو قسمت بدل جائے گی۔ حقیقت میں ہر حکومت میزبان ہوتی ہے قوم کی اسے زندگی گزارنے کے لیے گڈ گورننس کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت کو اپوزیشن ہی نہیں، وہ خود بھی اپنے آپ کو مہمان ہی سمجھتی ہے۔
بات بھی کسی حد تک درست ہے کہ وہ منتخب ہو کر آمرانہ چند سالوں کی مہمان ہوتی ہے ،آخراسے جانا ہی ہوتا ہے لیکن اس دھرتی کے اصل مالک تو ہم اور آپ یعنی عوام ہیں۔ اسے اپنی فکر اور آئندہ نسل ہی نہیں، دھرتی ماں کے استحکام کے لیے اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے تاکہ ہم اپنا زرمبادلہ صرف ضرورت کی اشیاء پر خرچ کریں۔ اللے تللے میں نہیں، اگر قوم اجتماعی طور پر اس راز کو سمجھ جائے تو کوئی آئے ، کوئی جائے، اس کی زندگی آسان ہی رہے گی، فضول خرچی اور برانڈ کے چکر سے نکل کر صرف پاکستانی بنیں، پورے نہیں تو آدھے مسائل خود بخود دم توڑ دیں گے ورنہ روسی صدر پوتن کا بیان یاد رکھیں کہ پاکستان۔۔ پاکستانیوں کا قبرستان ہے، کمائی اور مال ملک سے باہر رکھتے ہیں۔ مر کر دفن ہونے پاکستان آ جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button