Column

صدارتی ریفرنس اور عائشہ گلالئی ۔۔۔۔۔ روشن لعل

روشن لعل

آئین کے آرٹیکل63-A کی تفہیم کے لیے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس دائر ہونے کے بعد سے عائشہ گلا لئی کا نام بار بار ذہن میں ابھر رہا ہے۔ سیاسی منظر نامے سے قریباً غائب ہو چکی عائشہ گلالئی کا مذکورہ صدارتی ریفرنس سے براہ رست کوئی تعلق نہیں لیکن پھر بھی ایک خاص حوالہ کی وجہ سے اس کی یاد آرہی ہے ۔ عائشہ گلالئی کو صرف اس صدارتی ریفرنس کی وجہ سے ہی نہیںبلکہ کئی دیگر حوالوں سے بھی یاد کیا جاسکتا ہے۔ اس خوش وضع خاتون نے وزیر ستان سے تعلق کے باوجود انتہائی کم عمری میں پیپلز پارٹی سے اپنی سیاست کا آغاز کیا ۔ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے بعد اس نے اس قدر تندہی کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا کہ پارٹی نے اسے2007 کے عام انتخابات میں ٹکٹ دینے کا فیصلہ کر لیا مگر عمر کی حد پوری نہ ہونے کی وجہ سے یہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکی۔ تحریک انصاف کو جب خاص انتظام کے تحت سونامی کا نام دیا گیا تو عائشہ گلالئی بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے کئی اہم ناموں کی طرح سونامی کی لہروں میں بہتی ہوئی عمران خان کی ٹیم کا حصہ بن گئی۔ تحریک انصاف میں شامل ہونے کے بعد عائشہ گلالئی نے بہت جلد عمران خان کی نظروں میں اہم مقام حاصل کر لیا۔ اس اہم مقام کی وجہ سے وہ فاٹا کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی چنی گئی۔ عمران خان کے ڈی چوک اسلام آباد پر دیئے گئے 126 دن کے دھرنے میںعائشہ گلالئی نے اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ پی ٹی آئی کے نوخاستہ لوگوں نے اسے ملالہ یوسفزئی سے بھی بڑی شخصیت قرار دینا شروع کردیا۔ اس پذیرائی نے گلالئی کو اس قدر اعتماددیا کہ اس نے اپنی رائے کو پی ٹی آئی کے سیاسی فیصلوں کے لیے لازم و ملزوم قرار دیناشروع کردیا ۔ اس اعتماد میں سے ایک ایسا عجیب و غریب قسم کا عدم اعتماد برآمد ہوا جو عائشہ گلا لئی کی طرف سے عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت پر نا شائستہ ٹیکسٹ میسج بھیجنے کے الزامات پر مشتمل تھا ۔ یوں ، جو عائشہ گلالئی دو تین برسوں میں سیاسی طور پر عمران خان کے قریب تر ہوگئی تھی وہ دنوں میں اتنی دور چلی گئی کہ جیسے کبھی کوئی قربت نہ رہی ہو۔ آخر کار اس دوری کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ جس عائشہ گلالئی کے کبھی قصیدے پڑھے جاتے تھے اس کے خلاف عمران خان نے الیکشن کمیشن میں نااہلی کا ریفرنس دائر کردیا۔
عائشہ گلالئی کے سیاسی سفر کا مختصر احوال بیان کرنے اور اسے یاد کرنے کا بنیادی مقصد توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ جس طرح آج عمران خان کی حکومت نے تحریک انصاف کے منحرف اراکین کو نااہل کرانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 63-A  کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا ہے، اسی طرح کبھی عائشہ گلا لئی کو نااہل کرانے کی بھی کوشش کی تھی۔ موجودہ صدارتی ریفرنس پر سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر خاص اہتمام کے ساتھ اس طرح بحث کا رخ استوار کیا جارہا ہے، جیسے کوئی عوام کے ذہنوں کو کسی خاص فیصلے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔سنجیدہ حلقوںنے ایسی حرکتوں کو صرف عوام کی ذہن سازی ہی نہیں بلکہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش تصور کرنا بھی شروع کردیا ہے۔ اس قسم کے تصورات کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج فاضی فائز عیسیٰ کے اس خط سے تقویت ملی ہے جو انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر موجودہ صدارتی ریفرنس پر جو قیاس آرئیاں ہو رہی ہیں ان کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا تو کجا محض کوئی رائے دینا بھی مناسب نہیں ۔اس حتیاط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس صدارتی ریفرنس پر کچھ کہنے کی بجائے یہاں صرف یہ بیان کیا جائے گا کہ عمران خان نے آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت عائشہ گلالئی کے
خلاف جو ریفرنس دائر کیا تھا اس کاانجام کیا ہوا ۔
عمران خان سے فاصلوں میں اضافہ کے بعد عائشہ گلا لئی کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے کیمپ کا حصہ تصورکیا جانے لگا  تھا۔ میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد جب شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں نون لیگ کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے تو ان کے مقابلے میں عمران خان نے پی ٹی آئی کی طرف سے شیخ رشید کو اپنا امیدوارنامزد کیا۔ تحریک انصاف نے عائشہ گلالئی سمیت پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونیوالے اپنے تمام ارکین قومی اسمبلی کو شیخ رشید کو ووٹ دینے کی ہدایت کی ۔ عائشہ گلالئی پی ٹی آئی کی طرف سے جاری کردہ ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں شیخ رشید کو ووٹ ڈالنے کے لیے نہ آئی۔ پارٹی کی ہدایت کے باوجود شیخ رشید کو ووٹ نہ دینے اور عائشہ گلالئی کی طرف سے مستعفی ہونے کے بیان کو جواز بنا کر عمران خان نے اس کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کردیا۔ جب الیکشن کمیشن نے عمران خان کا موقف رد کر کے عائشہ گلالئی کے حق میں فیصلے دیا تو انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
سپریم کورٹ نے بھی آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت عائشہ گلالئی کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے کا عمران خان کا موقف رد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایک طرف تو یہ قرار دیا تھا کہ اگر رکن اسمبلی کا استعفیٰ تحریری کی بجائے صرف زبانی ہو تو اسے استعفیٰ تسلیم نہیں کیا جاسکتا اور دوسرا یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارٹی ہدایت کے باوجود اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی کے نامزد ممبر کو ووٹ دینے کی بجائے اسمبلی سے غیر حاضر رہتا ہے تو اس پر آرٹیکل 63-A کا اطلاق کر کے اس کی اسمبلی رکنیت ختم نہیں کی جاسکتی۔
مذکورہ حوالہ قومی اسمبلی میں ہونے والے ایک ایسے لیکشن کا ہے ، جو ہو چکا تھا اور جس میں پارٹی ہدایت کے مطابق ووٹ نہ دینے اور عائشہ گلالئی کے مسلم لیگ نون کے کیمپ میں تصور کیے جانے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت اس کی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا ریفرنس مسترد کر دیا گیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ایک ایسا الیکشن جو ابھی ہوا ہی نہیں ، اس کے لیے کیا محض پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ نہ دیئے جانے کے تصور کے تحت اراکین اسمبلی کو تاحیات نااہل قرار دینے کی استدعا قبول کر لی جائے گی۔ عائشہ گلالئی کے خلاف نااہلی ریفرنس کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے، اب سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر کیا فیصلہ کرے گا اس کا علم آنے والے وقت میں ہی ہو سکے گا ۔ جہاں تک کسی رکن پارلیمنٹ کا کسی کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیئے جانے کے تصور کا معاملہ ہے تو یاد رہے کہ حکومتی چیئرمین سینیٹ صادق سجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے یہ تصور کیا گیا تھا اپوزیشن کے ممبران کی اکثریت کی وجہ سے وہ اعتماد کا ووٹ نہیں لے سکیں گے مگر جب ووٹ ڈالے گئے تو نتیجہ تصورات کے برعکس برآمد ہوا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button