Column

اپوزیشن کا کاری وار ۔۔۔۔۔ مظہر چوہدری

مظہر چوہدری

موجودہ حکومت کے ابتدائی دو اڑھائی سالوں میں احتسابی عمل میں الجھی اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتیںجس طرح کے دبائو کا شکار تھیں، اس کو دیکھتے ہوئے لگتا یہی تھا کہ نہ صرف پی ٹی آئی حکومت اپنی آئینی مدت باآسانی پوری کر نے میں کامیاب ہو جائے گی بلکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے بھی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے کے امکانات روشن دکھائی دے رہے تھے۔ حکومت کے پہلے نصف دور میں اپوزیشن جماعتوںکے گرد احتساب کا شکنجہ اتنی مضبوطی سے کسا گیا کہ وہ مہنگائی سمیت کسی عوامی ایشو پر بھی عملی احتجاج کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ایک طرف اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنمائوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاتا رہا تو دوسری طرف سابق صدر آصف زرداری اورفریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کو بھی جیل کی ہوا کھانا پڑی۔
دوسال بعدحالات نے اس وقت قدرے پلٹا کھایا جب ایک درجن کے قریب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر دبائو بڑھانے کے لیے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم کا پہلا مرحلہ عوامی رابطہ مہم تھا جس کے تحت چاروں صوبوں میں 20جلسے کیے گئے۔ تحریک کا یہ مرحلہ کافی حد تک کامیاب رہا ۔ ایک آدھ کے سوا قریباً سبھی جلسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ان جلسوں میں کی جانے والی حزب اختلاف کے رہنمائوں کی تقریروں میں عوامی جذبات کی گونج نمایاں رہی ۔ اگرچہ بعد کے مرحلوں میں لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے میں اختلافات کی بنا پر پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑنے سے اپوزیشن جماعتیں حکومت پردبائو بڑھانے میں کامیاب نہ ہوسکیں تاہم کچھ حوالوں سے یہ تحریک کسی حد تک کامیاب بھی رہی۔ پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد حکومت پر دبائو بڑھانے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی و انتخابی نظام میں ہر قسم کی مداخلت بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے سات نکاتی ایکشن پلان میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوششوں سمیت قانون ساز اداروں کے اندر بیٹھ کر جدوجہد کرنے کا تذکرہ بھی شامل تھا ۔
آج اگر حکومت کو عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کے کاری وار کا سامنا ہے تو اس کے پیچھے پی ڈی ایم کاسات نکاتی ایکشن پلان ہی ہے۔ اسی طرح آج اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل دکھائی دے رہی ہے تو اس کی وجہ بھی پی ڈی ایم کا بنیادی ایجنڈا ہی ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جہاں حکومت کی عوام دشمن پالیسیوںکو آشکارکیا جاتا رہا وہیں حکومت کو گھر بھیجنے اوربنا کسی مداخلت کے آزادانہ و غیر جانب دارانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد حکومت کو گھر بھیجنا ہی تھالیکن طریقہ کار کے اختلاف اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر پہلے مرحلے میں یہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکی تاہم اس کے بعد بتدریج حالات اپوزیشن کے حق میں آنا شروع ہو گئے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پیدا ہونے والی کھچائوکی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف فائنل رائونڈ کھیلنے کی منصوبہ بندی کرنے لگی۔ رہی سہی کسر پٹرول کی قیمتوں میں پے در پے اضافوں اور فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں قریباً ہر ماہ ہونے والی مہنگی بجلی نے پوری کر دی۔اگرچہ روس یوکرین تنازعہ کے نازک حالات میں وزیراعظم کے دورہ روس کے فیصلے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھے لیکن دورہ روس کے بعد میلسی جلسے میں وزیراعظم کی جانب سے یورپی یونین پرکی جانے والی تنقید سے اپوزیشن رہنمائوں کو حکومت پر چڑھائی کا موقع مل گیا۔ میلسی جلسے کے کچھ دنوں بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نیوز بریفنگ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سیاست میں فوج کے نیوٹرل رہنے کی بات کرتے ہیں جب کہ اس بیان کے دو دن بعد وزیراعظم ایک اور جلسے میں لفظ نیوٹرل کی کچھ ایسی تشریح کرتے ہیں کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوا جیسے وزیراعظم نے یہ بات آئینی ادارے کے حوالے سے کی ہے۔
اس سارے پس منظر کوواضح کرنے کا مقصد یہ واضح کرنے کے سوا کچھ نہیں کہ حکومت نے ایک سے زائد محازوں پر غیر دانش مندانہ فیصلے اور
نامناسب حکمت عملیاں اختیار کر کے اپوزیشن کو کاری وار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ عدم اعتماد کے حوالے سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی طرف سے سامنے آنے والا بیان یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حکومت کواب ہر حال میں عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ کروانا پڑے گی۔ انتخابی ماہرین کے مطابق جس طرح کسی رکن کو ووٹ دینے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح قومی اسمبلی کے سپیکر کے پاس کسی منحرف رکن کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا حق نہیں۔اپوزیشن نے عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے ایک سے زیادہ محازوں پر کام کیا اور اب حکومت کے بہت سے اراکین کو اپنے ساتھ ملا چکی ہے تو دوسری جانب وہ اتحادی جماعتوں کو بھی حکومت کے خلاف کر چکی ہے۔ اگلے چند روز میں اتحادی جماعتوں کا حکومت سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان متوقع ہے۔اگر تو اگلے دو تین روز میں اتحادی جماعتوں نے علیحدگی کا اعلان کر دیا تو عدم اعتماد کے حوالے سے ہونے والی ووٹنگ پر اپوزیشن منحرف اراکین سے تحریک کے حق میں ووٹ ڈلوائے بغیر کام چلا سکتی ہے۔اس آپشن پر جانے سے منحرف اراکین کے خلاف کسی کارروائی کا امکان زیرو ہو جائے گا۔ویسے تو اتحادی جماعتوں کے حکومت سے الگ ہونے کی صورت میں وزیر اعظم استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں لیکن وزیراعظم کے بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ استعفیٰ دینے کی بجائے آخر (عدم اعتماد پر ووٹنگ )تک اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کافیصلہ کر چکے ہیں۔ اتحادی جماعتوں کے حکومت سے الگ نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن لازمی طور پر منحرف اراکین کے ووٹوںسے عدم اعتماد کامیاب کروا نے کی طرف جائے گی۔ایسی صورت حال میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر آنے والا فیصلہ’’فیصلہ کن‘‘ اہمیت کا حامل ہوگا۔ ان حالات میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے تشکیل دئیے گئے لارجر بینچ پر جسٹس فائز عیسی کے اعتراض کو بھی نہایت اہم اور معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے۔بادی النظر میں دیکھیں تو حکومت کے لیے اپوزیشن کے عدم اعتما د کے کاری وار سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے تاہم پاکستانی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیںکہا جا سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button