Column

قومی حکومت اور شہباز شریف …. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرحلہ ابھی باقی ہے کہ مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف نے پانچ سالہ قومی حکومت کی تجویز دے دی ہے۔ میاں شہباز شریف شاید بھولے ہوئے ہیں اس سے قبل ملک میں کئی مرتبہ قومی حکومت کے قیام کی تجاویز آئیں جو پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں۔ اگرچہ قومی حکومت میں کوئی برائی تو نہیں مگر عملی طور پر قومی حکومت کی تجویز قابل عمل نہیں۔ ملک میں ان گنت سیاسی پارٹیوں کی موجودگی میں قومی حکومت کاقیام کیسے ممکن ہے، جب ہر سیاسی جماعت کی اپنی پالیسیاں اور اپنے اپنے مفادات ہیں۔ موجودہ حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کے بل بوتے پر تین سال سے حکومت کر رہی ہے جب اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اپنے مفادات کی خاطر اتحادی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ تادم تحریر اتحادی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ چھوڑنے کا باضابطہ اعلان تو نہیں کیا تاہم قومی امکان ہے کہ وہ عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔مسلم لیگ قاف کے رہنماﺅں کے بارے میں تاثر عام تھا کہ وہ اپنی بات کے بہت پکے ہیں ۔عوام نے دیکھ لیا عدم اعتماد کی کشمکش میںقاف لیگ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیںرہا۔

ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں شہباز شریف نے تعجب خیز بات کردی کہ وزیراعظم عمران خان اگر لوٹی ہوئی دولت کے دو ارب روپے واپس لے آتے تو یہ ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت تھی۔ ہمیں حیرت تو اس بات کی ہے منی لانڈرنگ کے مقدمات شہباز شریف اور ان کے خاندان کے لوگوں کے خلاف ہیں۔نیب مقدمات میں وہ ضمانت پر ہیں۔آصف علی زرداری کی دولت باہر ہے تو عمران خان لوٹے ہوئے دو ارب کس سے واپس لے آتے؟شہباز شریف کا کہناہے قومی حکومت میں وہ قانون سازی کرکے نئے انتخابات کا انعقاد کریںگے ۔تاسف ہے جب تحریک انصاف نے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرانے کی کوشش کی تو اپوزیشن نے حکومت سے مشاورت کرنے سے انکار کر دیا۔نجانے میاں شہباز شریف آئندہ انتخابات میں شفافیت لانے کے لیے کون سی ٹیکنالوجی لائیں گئے۔ جہاں تک بی این پی کے صدر اختر مینگل کا حکومت سے علیحدگی کامعاملہ ہے تو بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ ان کا ہر حکومت سے ہوتا ہے۔ ان لاپتا افراد میں ان کے حقیقی بھائی بھی شامل ہیں جو کم ازکم تین چار عشروں سے لاپتا ہیں۔اختر مینگل کا حکومت سے ایک بڑا مطالبہ افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا بھی تھا، جو کسی حد تک درست ہے اس کے بر عکس یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے طالبان کی حکومت آنے کے بعدعالمی دباﺅ کے باوجودمزید افغان مہاجرین کو لینے سے انکار کر دیا تھا۔ہم تو اپنے کئی کالموں میں حکومت سے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
عدم اعتماد کی ووٹنگ سے پہلے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے اسلام آباد میں پاور شو کامظاہرہ کرنے کا جو پروگرام بنا یا ہے اس کا حصول سمجھ سے بالاتر ہے۔قانونی طور پر کسی کو ووٹ دینے سے جب روکا نہیں جا سکتا تو حکومت اور اپوزیشن کو میلہ لگانے کی چنداں ضرور ت نہیں تھی۔یوں بھی اخلاقی لحاظ سے اگر کوئی حکومت یا اپوزیشن کو ووٹ دینے پر رضامند نہیں تو کسی سے جبری طور پر ووٹ کا حصول قانونی اوراخلاقی اعتبار سے اچھی بات نہیں۔ ہمارے اپنے خیال میں عدم اعتماد کی ووٹنگ کے روز حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ارکان غائب ہونے کا امکان ہے۔بقول چوہدری پرویز الٰہی حکومت کے بارہ اراکین غائب ہیں توپھر اپوزیشن کے ارکان بھی ادھر اُدھر ہوسکتے ہیں۔حالیہ سیاسی کھیل کے پس منظر میں جائیں تو اپوزیشن جماعتوں کو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اس وقت حوصلہ ہوا جب وزیراعظم کی طرف سے اتحادی جماعتوں کے علاوہ اپنی جماعت کے ارکان کے درمیان رابطوں اور اعتماد کے فقدان نے وزیراعظم اور اتحادیوں میں فاصلے بڑھا دیئے۔جلتی پرتیل کا کام وزیراعظم کے طرز حکمرانی نے کیا۔اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف بارے یہ بات مشہور تھی وہ اپنے وزراءاور ارکان کو وقت نہیں دیتے وزیراعظم عمران خان نے اس سلسلے میںنہ صرف نواز شریف کی تقلید کی بلکہ اپنی جماعت کے ان لوگوں کو مسلسل نظر انداز کئے رکھا جنہوں نے تحریک انصاف کی ہر لحاظ سے آبیاری کی۔ آج وزیراعظم کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔اگر وہ اپنے اقتدار کے دوران اپنی جماعت کے ارکان اور اتحادیوں میں توازن برقرار رکھتے تو شایدانہیں عدم اعتماد کاسامنانہ کرنا پڑتا۔جہاں تک ہماری سیاسی جماعتوں میں اصولوں کی پاسداری کی بات ہے ہم اس بات کا کریڈٹ جماعت اسلامی کو دئیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان اور دیگر جماعتوں کے رہنماﺅںکی امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے کئی ملاقاتوں کے باوجودوہ انہیںوزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے ۔ تاہم وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کم ازکم سیاسی جماعتوںکو غیر مرئی قوتوں کی مداخلت کا شکوہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ملکی سیاست میں آنے والے دن بہت اہم ہیں جب حکومت اور اپوزیشن دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے اپنے پاور شو کا مظاہر ہ کریں گے ۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے تو اسلام آباد آنے کے بعد واپس نہ جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے حالات خراب ہونے کی صورت میں نتائج کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمان پر ڈال دی ہے۔ملک میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات کی روشنی میں ہمارا ملک بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سیاست دانوں کو ملک وقوم کے مفاد میں کسی قسم کے تصادم سے گریز کرنا ہوگا۔ ملک ہے تو ہم بھی ہیں۔سیاست دانوں کو جو مراعات حاصل ہیں وہ ملک سے ہی حاصل ہیں۔ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہی گھسے پٹے سیاست دانوں نے اقتدار میں آنا ہے تو یہ ملک وقوم کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔اللہ تعالی سے دعا ہے وہ ہمارے ملک وقوم کی حفاظت فرمائے اور ملک میں امن وامان قائم رہے ۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button