Column

تحریک عدم اعتماد اور اگر مگر …. علی حسن

 علی حسن
خبریں ہیں کہ حزبِ اختلاف نے تحریکِ عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر لیا ہے، مسودے پر پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، جمعیت علماءاسلام ، عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور دیگر کے دستخط ہیں۔اپوزیشن ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر نواز شریف نے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ایمپائر بظاہر نیوٹرل ہیں، تحریک عدم اعتماد کے لیے ہوم ورک مکمل ہے، دودن میں خوشخبری دیں گے، بہار آئے نہ آئے، خزاں کو جانا چاہیے۔
بات خواہشوں کی نہیں ہے۔ حقیقت ہے کہ ابھی دریا عبور کرنے کا مرحلہ دور ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت اور بھی دور ہو جاتا ہے جب کسی سیاسی اتحاد میں شامل تمام ہی عناصر اپنے اپنے لیے پسند کی حیثیت کے خواہاں ہوں۔ پسند کی نشست تو ہوائی جہاز اور سنیما ہال میں بھی نہیں ملتی ، یہ تو معاملہ ہے ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ”وزیر اعظم بلاول “ کے نعرے لگا رہی ہے۔ یہ نعرے اس ریلی میں لگائے جا رہے ہیں جو اتوار کو کراچی سے چلی اور اسے اسلام آباد پہنچنا ہے، جہاں بقول چیئرمین عمران خان کو حکومت سے باہر کر دینا ہے۔ یہ ریلی سندھ کے مختلف اضلاع سے گزر کر پنجاب میں داخل ہوچکی ہے ۔ پارٹی کے ”ہمدرد“ اپنے نوجوان چیئرمین کے ذہن میں یہ بات بٹھا دینا چاہتے ہیں کہ وہ ہی ملک کے آئندہ وزیر اعظم ہیں۔ چیئرمین کے قریب ر ہنے والے اور ان سے محبت کرنے والے یہ یقین کر بیٹھیں گے کہ ان کے چیئر مین ہی وزیراعظم ہوں گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو انہیں یقیناً دھچکا پہنچے گا۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ ان کے بارے میں نعرے بازی کی جاتی تھی لیکن جب معاملہ اس کے بر عکس ہوگیا تو سب ہی کو شدید دھچکا پہنچا۔ شہباز شریف سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا وہ آئندہ وزیر اعظم ہوں گے، انہوں نے ہاں یا نہیں میں جواب نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ گویا وہ بھی امید سے ہیں۔ ویسے بھی نواز شریف کی ملکی سیاست سے فراغت کے بعد شہباز شریف ہی امید وار رہ جاتے ہیں لیکن نواز شریف تو اپنی بیٹی کو وزیر اعظم بنانے کا اس زمانے سے خواب دیکھ رہے ہیں جب وہ وزیر اعظم تھے۔ شہباز شریف وزیر اعظم کے عہدے کے ایسے امیدوار سمجھے جاتے ہیں جنہیں ان کی پارٹی کے سنجیدہ لوگوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماءبھی اہل سمجھتے ہیں لیکن شہباز شریف کو دریا تک پہنچنا ہی مشکل نظر آتا ہے۔ کیوں کہ مریم ، آصف زرداری کے بارے میںاپنے سخت تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ انہیں یہ ملال ہے کہ زرداری نے ان کے والد کے بارے میں بہت سخت زبان استعمال کی تھی۔ یہ بات ان سے اس موقع پر بھی ہضم نہیں ہو رہی ۔ مریم اور بلاول کے تعلقات بڑی حد تک بہت اچھے تصور کئے جاتے تھے لیکن یہ ” نگوڑی“ سیاست نے دونوں سیاسی رہنماﺅں کے درمیان دراڑ پیدا کر دی اور ایسی خلیج پیدا ہو گئی ہے جسے پاٹا نہیں جا سکے گا۔

پی ڈی ایم کو کھڑا کرنے سے آج تک کسی نہ کسی طرح زندہ رکھنے کا کارنامہ مولانا فضل الرحمان کا ہے ۔ وہ بھی توخواہش رکھتے ہیں کہ وزیر اعظم کے عہدے کا قرعہ ان کے صاحبزادے کے نام بھی نکل سکتا ہے۔ مولانا کو یہ غرض نہیں کہ ان کا دورانیہ کیا ہوگا۔ بس وہ تو اپنے بیٹے کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ خود مولانا کو جب (ن) لیگ سمیت حزب اختلاف کی کئی جماعتوں نے 27 اگست 2018 کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ انہوں نے4 ستمبر 2018 کو قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 184 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کو نامزد کیا تھا جنہوں نے 124 ووٹ حاصل کئے لیکن تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی 352 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو گئے ۔ مولانا کے ناقد کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کو کھڑا کر کے مولانا نے نواز شریف کا قرضہ ادا کیا ہے۔ نواز شریف کی سیاست کا باب بند ہو گیا تھا لیکن مولانا نے پی ڈی ایم بنا کر مریم کو جلسے کر نے کے مواقعے فراہم کردیئے جس نے یہ بات بر ملا کہی کہ نواز شریف سپریم کورٹ سے نا اہلی کے باوجود بھی پاکستانی سیاست میں اپنا کردار رکھتے ہیں۔ مولانا کی کامیابی میں اور بھی رکاوٹیں تھیں جن میں اہم یہ بات ہے کہ ان کے طالبان کے ساتھ مراسم ہیں جسے اندرون اور بیرون ملک کے کئی حلقے پسند یدہ نگا ہ سے نہیں دیکھتے۔
بات کچھ اور ہو رہی تھی اور نکل کسی اور طرف گئی۔ جیسا اوپر لکھا گیا ہے کہ سب ہی لوگ بڑے عہدے کے اس وقت خواہش مند ہیں جبکہ دریا عبور نہیں ہوا ۔ دریا کے عبور ہونے کے بعد ہی دیکھا جائے گا کہ موجودہ وزیر اعظم کے علاوہ بھی کوئی وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔؟ کسی اور کے وزیر اعظم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ موجودقومی اسمبلی میں ہی قائد ایوان کی تبدیلی ہو جائے ۔ اس صورت میں تو تحریک انصاف ہی اپنا زور لگائے گی۔ شہباز شریف کو موقعہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب تحریک انصاف کی جانب سے بھی ان کی مدد کی جائے لیکن یہ بھی عجیب مفروضہ ہے۔ رہ گئی بات نئے عام انتخابات کے انعقاد کی تو کیا یہ ممکن ہے کہ پاکستان اتنے بڑے خرچے سے نئے انتخابات کا انعقاد کر سکے؟ سیاست دان تو انتخابات اس لیے چاہیں گے کہ انہیں عمران خان کو روانہ کرنا اور خود آنا ہے۔ یہ ایک طرح سے ان تمام سیاست دانوں کو جن کے خلاف کرپشن کے مقدمات چلائے جارہے ہیں ، عملًا این آر او مہیا کرنا ہو گا ۔ این آر او دے کر آپ یہ ثابت کریں گے کہ ان کے خلاف ثبوت نہیں مل سکے۔ قومی احتساب بیورو ( نیب) ایسی صورت حال میں بین ہی کرتا ہی رہ جائے گا۔

یہ سارے مفروضے ہی ہیں جو کالم لکھنے والے حمایت اور مخالفت میں لکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی مفروضہ ہی ہے کہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ایوان وزیر اعظم خالی کر جائیں گے۔ پاکستانی سیاست دانوں کے لیے یہ بات پریشان کن ہے کہ عمران خان مزاحمت کریں گے اور اتنی آسانی سے عہدہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ وہ اپنی تمام طاقت اور قوت صرف کردیں گے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ان کے گلے کا طوق نہ بن سکے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button