Column

یوکرین، جنگ کا نیا محاذ …. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف قرارداد منظورکی گئی ہے جس میں روس سے فوری طور پر جنگ بند کرنے اور یوکرین سے فوج واپس بلانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ جنرل اسمبلی کا اس طرح ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے 193ارکان میں سے 141نے روسی حملے کے خلاف ووٹ دے کر قرارداد منظور کی جب کہ پاکستان اور چین سمیت 35 ممالک نے ووٹنگ کے اس عمل میں حصہ نہیں لیا اور غیر حاضر رہے۔ اسی طرح پانچ ملکوںجن میں روس، شام اور بیلاروس شامل ہیں ، نے اس قرارداد کو مکمل طور پر مسترد کیا۔ امریکہ کی طرف سے اجلاس سے قبل پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ روس کے خلاف ووٹ دے تاہم پاکستان نے امریکی دباﺅ مسترد کرتے ہوئے واضح موقف اختیار کیا اور کہا کہ ہم کسی عالمی بلاک کا حصہ نہیں بنیں گے اورغیر جانبدارانہ پالیسی پر قائم رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے جب روس کا دورہ کرنا تھا تو اس وقت بھی یہ دورہ ملتوی کروانے کی بہت کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے امریکہ کے اعلیٰ سطحی وفد نے رابطہ بھی کیا تاہم وزیراعظم پاکستان اپنے فیصلہ پرقائم رہے اور پہلے سے طے شدہ اپنے اس دورہ پر نظرثانی سے انکار کر دیا۔ اس دورہ کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان کی تین گھنٹے کی ملاقات ہوئی جس میں بین الاقوامی حالات و معاملات سمیت دونوں ملکوں کو درپیش چیلنجز پرتفصیل سے گفتگو کی گئی۔

پاکستانی حکومتوںاور ان کی خارجہ پالیسی کا طویل عرصہ سے جھکاﺅامریکہ کی طرف رہا ہے۔ہمارے اکثروبیشتر سیاست دانوں کے اثاثے بھی امریکہ اور یورپ میں ہیں اور بلاشبہ سیاسی جماعتوں میں ان کا اثرورسوخ بھی موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ کی مخالفت کی بات آتی ہے تو سیاستدانوں اورمیڈیا میں سے بعض لوگ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں جب روس کا دورہ کرنا تھا تو ٹی وی چینلزکی سکرینوں پر بیٹھ کر بہت سے تجزیہ نگار اور سیاست دان سیخ پا ہوتے رہے کہ اس وقت جب روس اور یوکرین کے حالات کشیدہ ہیں وزیراعظم کو کسی طور روس نہیں جانا چاہیے، مستقبل میںاس کا پاکستان کو نقصان ہو گالیکن وزیراعظم عمران خان نے ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دی اور روس پہنچ گئے جہاں ان کی شایان شان استقبال کیا گیااور ان کی ملاقاتیں بھی بہت اچھی رہیں۔ روسی صدرولادیمیر پوتن نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی وزیراعظم کے دورہ پر اظہا رخیال کرتے ہوئے ان کی جرا ¿ت پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وہ جس طرح غیرملکی دباﺅ کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے ملک آئے ہیں اس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اس حوالے سے ان کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں انہیں یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ خود بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ غیر جانبدار تجزیہ نگاروںکی رائے میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ روس بہت کامیاب رہا اور بین الاقوامی دنیا کو پیغام گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کا بغل بچہ نہیں ہے اوراسے بھی اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاںترتیب دینے کا حق حاصل ہے۔
بعض سیاستدان اور تجزیہ نگارمحض مخالفت برائے مخالفت پر سارا زور لگاتے دکھائی دیتے ہیں ورنہ انہیں دیکھنا چاہیے کہ چند دن قبل سلامتی کونسل کے جس اجلاس میں روس کی مذمت کرنے کی قرارداد پیش کی گئی بھارت اس اجلاس سے غیر حاضر رہا حالاں کہ مودی سرکار کے ان دنوں روس کی نسبت امریکہ سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور اسی امریکہ بہادر کے تعاون سے وہ نائن الیون کے بعد کئی سال تک افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو دہشت گردی سے دوچار کرتا رہا ہے۔ بھارت نے تو یہ نہیں سوچا کہ اگر اس نے امریکہ کی حمایت نہ کی تو وہ دنیا میں تنہا رہ جائے گا۔ پاکستان آج اگر امریکی کیمپ سے نکلنا چاہتا ہے تو خدارا اسے نکلنے دیں، آج تک اس نے ہر موقع پر نقصانات سے دوچار کرنے کے سوا آپ کو دیا ہی کیا ہے؟۔حیرت ہوتی ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور بے پناہ جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد بھی کئی سیاست دان اور تجزیہ نگار امریکہ کی ناراضی کی فکر میں دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کی طرف سے یوکرین کی عوام کے لیے اس وقت بہت تکلیف کا مظاہرہ کیا جارہا ہے لیکن پچیس سال پہلے انہی ملکوںنے بوسنیائی مسلمانوں کو خونخوار سربوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے لیے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ بوسنیائی مسلمان یوکرینیوں کی طرح سفید فام تھے لیکن ان کی مسلم شناخت کی وجہ سے مغرب نے سربوں کی سرپرستی کی اور ان کی نگرانی میں بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی جاتی رہی۔اس وقت یہی اقوام متحدہ جو ہنگامی اجلاس کر رہی ہے، اس کی امن فوج کے جھنڈے تلے مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہا لیکن اس کی انصاف پسندی نے سیاہ چادر اوڑھے رکھی ، وجہ صرف یہ تھی کہ جن کا خون بہایا جارہا تھا وہ مسلمان تھے۔ مشرقی تیمور میں جو کچھ ہوا بھی وہ بھی دنیا کے سامنے ہے اور کشمیر میں جس طرح بھارت کی نو لاکھ فوج نہتے او رمظلوم مسلمانوں کا خون بہا رہی ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں مگر افسوس کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی اجلاس بلانا تو درکنار اس نے خود کشمیریوںکے حق میں جو قراردادیں پاس کر رکھی ہیںان پر بھی عمل درآمد نہیں کروایا جاسکا۔ روسی فوجی دستے کو روکنے کے لیے خودکش دھماکہ کرنے والے یوکرینی فوج ویٹالی سکاکون کو ہیروکا درجہ دیا جارہا ہے لیکن اگر کشمیری و فلسطینی مسلمان اپنی عزتوں و حقوق کے دفاع کے لیے فدائی یا خودکش حملے کریں تو انہیں فوری دہشت گرد قراردے دیا جاتا ہے۔ مغرب کو اس دوہرے معیار کو ترک کرنا ہو گا۔
آج یورپ کی طرف سے مختلف ملکوں سے یوکرین جانے والے جنگجوﺅںکو درست مانا جارہا ہے اور یوکرین کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فراہم کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔یورپی یونین نے جنگی طیارے بھیجنے کی منظوری دی ہے۔بلغاریہ، سلواکیہ اور پولینڈ نے ستر فوجی جنگی طیارے یوکرین میں تعینات کر دیے ہیں۔ روسی اسٹیٹ بینک پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔یورپی بینکوں میں ساڑھے چھ سو پچاس ارب ڈالر کے روسی اثاثے منجمدکر دیے گئے ہیں اوریورپی کمپنیاں روس سے اپنا سرمایہ نکال رہی ہیں۔ادھر ڈنمارک کی وزیراعظم میٹ فریڈرکسن نے اپنے شہریوں کو روس کے خلاف لڑائی کے لیے بننے والی بین الاقوامی بریگیڈ میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے اور کوسوو نے روسی حملے کے خوف سے امریکہ سے نیٹو میں شمولیت اور ایک مستقل امریکی بیس کی درخواست کی ہے جب کہ دوسری طرف امریکہ و یورپ روس پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور اسے معاشی طور پر زبردست نقصانات سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو نہ تو بھارت اور اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کا قتل روکنے کے لیے دہشت گردافواج کا ہاتھ روکا جاتا ہے۔ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں مسلمان امن سے رہنا چاہتے ہیں لیکن انہیں جان بوجھ کر جنگ کی آگ میں دھکیلاجاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ امریکہ کا ساتھ دیا جائے تو وہ اسے جہاد مانتے ہیں لیکن اگر اس کی مخالفت کی جائے تو اس پر دہشت گردی کی باتیں کی جاتی ہیں۔روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے تو اسے امریکہ اور نیٹوفورسز کی طرف سے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جب وہ یوکرین کو شہ دے کر اسے نیٹو میں شامل کرنے اور وہاں اپنے اڈے بنانے کی کوشش کریں گے تو روس اس پرکس طرح خاموش رہ سکتا ہے؟ وہ بھی اپنے دفاع کے لیے لازمی طور پر ہر حربہ آزمائے گا۔
امریکہ اور نیٹو کی حالت تو یہ ہے کہ یوکرین کو پہلے بہت زیادہ یقین دہانیاں کروائی گئیںلیکن جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو اسے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے جس پر یوکرینی صدر بھی واویلا کرتے نظر آئے ہیں۔روس کی جانب سے یوکرین کی پشت پناہی کرنے والے یورپی ملکوں کو بھاری قیمت چکانے کی دھمکی کے بعد امریکہ و نیٹو ممالک اپنی افواج کو کبھی یوکرین نہیں بھیجیں گے، افغانستان میں بدترین شکست کے بعد کسی اور جگہ اس قسم کی حرکت کا فی الحال وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کی ساری کوشش آنے والے دنوں میں یہ ہو گی کہ یوکرین کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے روس کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کروا دیا جائے کیوں کہ انہیں یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ روس کو اسی خطہ میں روکا نہ گیا تو پھراس کے بڑھتے قدموں کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button