Column

سیاسی بدزبانیاں …. عبدالرشیدمرزا

 عبدالرشیدمرزا

سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود اخلاقیات ہمیں جو ریاست مدینہ سے ملیں اس کے مطابق نواز شریف کی بیٹی مریم، عمران خان کی اہلیہ بشریٰ ، بے نظیر بھٹو کی بیٹی بختاور، قاضی حسین احمد کی بیٹی ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی ہوں یا ان کے علاوہ تمام خواتین اس ملک کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں لیکن افسوس کہ ہماری سیاست دانوں نے اپنی گفتگو اور کردار کے ذریعے ان رشتوں کو پامال کیا۔ پارلیمنٹ کسی بھی ملک کے لیے عبادت کا درجہ رکھتی ہے، ان اداروں میں جہاں باکردار لوگ آئے وہاں بدقسمتی سے بد اخلاق لوگوں کی بھی بڑی تعداد موجود رہی۔ پاکستان بننے کے بعد سے سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی کردار کشی کی اور ایسے القابات سے نوازا جو پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ رہے۔

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بِگڑا
یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ”ریاستیں، شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتیں۔ ریاستیں انسان کے کردار سے بنتی ہیں“۔ لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ہمارے سیاستدان جس قسم کی غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں، بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت خواہ وہ برسر اقتدار ہویا حزب اختلاف ، اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ معیشت، قانون سازی، کاروباری امور کو چلانے کی مہارت ہے اور نہ ملک سے اخلاص کی دولت ۔
آزادی کے بعد اقتدار پر فوراً ہی افسر شاہی کو تصرف حاصل ہوگیا اور سیاسی ادارے ثانوی حیثیت اختیار کرگئے۔نو سال تک ملک کا آئین نہ بننے کے نتیجے میں بنیادی سیاسی امور تعطل کا شکار رہے۔ اقتدار پر قابض افسر شاہی اور ا ±س کی شریکِ اقتدار سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کو غدار کہنا شروع کردیا۔ بنگال کے سابق وزیراعلیٰ اور تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما حسین شہید سہروردی کو ہندوستان کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ ”پاکستان“ لفظ کے خالق چودھری رحمت علی پاکستان آئے تو ان کے لیے یہاں ٹھہرنا ناممکن بنا دیا گیا وہ واپس انگلستان چلے گئے۔ 1965ءکے صدارتی انتخاب کی انتخابی مہم 1964ء کے آخری مہینوں میں شروع ہوئی۔ ایوب مخالف اتحاد، کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی، نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف میدان میں اتارا تو سرکاری مشینری نے فاطمہ جناح کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میاں ممتاز دولتانہ کو”چوہا“ اور قیوم خان کو’ ’ڈبل بیرل خان“ کے القابات سے نوازا گیا۔ 1977ءکی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی زوال کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کوکوہالہ کے پ ±ل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ”الو“ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ”گنجے کے سر پر ہَل چلے گا“ کا نعرہ لگایا(ہَل، پی این اے کا انتخابی نشان تھا)۔ بھٹو کے خلاف اور بھی نعرے گھڑے گئے۔
سیاسی اخلاقیات کا زوال مزید اس وقت آگے بڑھا جب ضیاءالحق کی موت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان اگلے دس سال کی آویزش کا دور دورہ ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں نے تمام اخلاقی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو صاحبہ کی تصاویر کو بے ہودہ رنگ دے کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا۔ ملک میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ ایک عورت کسی اسلامی مملکت کی حکمرانی نہیں ہوسکتی۔ اسی زمانے میں نواز شریف کے ا ±س وقت کے قریب ترین رفقاءمیں شامل شیخ رشید نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ذو معنی فقرے کہنے اور اشاروں کنایوں میں ان کی کردار کشی کی شہرت حاصل کی۔ بےنظیر بھٹو نے جب پارلیمینٹ میں صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف”گوبابا گو“ کے کورَس کی قیادت کی تو یہ بھی ا ±ن کے امیج کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سب سے زیادہ ہدفِ تنقید آصف زرداری بنے۔ شہباز شریف ایک موقع پر یہ کہتے پائے گئے کہ وہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ ایک دوسرے کے خلاف طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا یہ کلچر 2013ءکے انتخابات کے بعد اور بھی مضبوط ہوا۔
موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان الفاظ ، الزامات اور جو ابھی الزامات کی ایک جنگ مستقل جاری ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تو مریم نواز کے لیے مسلسل ”راجکماری“ اور (ن) لیگ کی خواتین کو” کنیزیں“ کہتی تھیں ۔ بلاول بھٹو بالعموم شیخ رشید کی اشاروں کنایوں کی گفتگو کا بھی موضوع بنتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بظاہر عبدالقادر پٹیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مراد سعید اور دیگر بلاول بھٹو مخالف تیروں کا جواب اپنے تیروں سے دیں۔ خود بلاول حکومت کے خلاف وہ زبان تو استعمال نہیں کرتے جو ا ±ن کے خلاف بعض وزراءاستعمال کرتے ہیں لیکن ”بے غیرت“ کا لفظ اب ان کی زبان پر بھی چڑھ گیا ہے ایسے لگتا ہے جیسے ان کے منہ سے تیروں کی بارش ہو رہی ہو۔
رکھ دیے جائیں گے نیزے لفظ اور ہونٹوں کے بیچ
ظل سبحانی کے احکامات جاری ہو گئے
ان وجوہات کا جاننا ضروری کہ ہمارے سیاستدان غیر اخلاقی زبان کیوں استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کے پاس قوم کے سامنے رکھنے کے لیے نہ تو کوئی ٹھوس پروگرام ہوتا ہے ، نہ ہی انہوں نے ملک کے حقیقی معاشی اور سماجی مسائل کے بارے میں سنجیدہ تحقیق اور مطالعے کی زحمت گوارا کی ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت پہلے اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد ا ±س کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مختلف شعبوں میں اب وہ کیا کرے گی۔ جب اپنے پلّے کچھ علم اور شعبہ جاتی مہارت نہ ہو تو پھر اپنی موجودگی صرف بیان بازی اور مخالفین پر شخصی حملوں کے ذریعے ہی ثابت کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایوان ہی لڑائی جھگڑوں کا اور بدکلامی کا مرکز بن چکے ہیں نتیجتاًسیاسی جماعتوں کی دوسری اور تیسری صفوں کے رہنما بھی گلی محلوں میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔ خفیہ ذرائع سے معلومات حاصل کرنا اور میڈیا میں پیش کرنا منفی سیاست کا پیش خیمہ ہے۔
اب لوگوں کا سیاست سے اعتماد اٹھ گیا ہے سیاستدانوں کو اخلاقیات کے دامن پر عمل پیرا ہونا ہوگا، آج لوگ سیاست کو گالی سمجھتے ہیں اس کو سیاستدان ہی اپنے کردار اور حسن اخلاق سے ٹھیک کرسکتے ہیں۔ بات کریں ایسے جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑتے ہوں، لوگ ان سے نفرت کرنے کی بجائے محبت کریں، ملنے کو ترسیں۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button