CM RizwanColumn

’’ صرف گولی کی اجازت ہے‘‘

’’ صرف گولی کی اجازت ہے‘‘
تحریر : سی ایم رضوان

پاکستان کے صوبہ کے پی کے، سندھ اور بلوچستان کے مختلف قبائلی علاقوں میں ماورائے عدالت نجی سطح پر قائم کئے گئے مقامی جرگوں، نجی عدالتوں اور طاقتور سرداروں کے احکامات پر مرد و خواتین کو مبینہ طور پر باہمی ناجائز تعلقات کے الزام میں قتل کئے جانے کے واقعات کا ایک طویل سلسلہ اور تاریخ ہے۔ یہ ظالمانہ نظام قیام پاکستان سے قبل کا جاری و ساری ہے مگر آج کی مہذب دنیا میں بھی ہم اپنی ریاست کے ہوتے ہوئے اور ایک ملک اور آئینی نظام کی موجودگی میں بھی اس ظالمانہ، غیر انسانی اور غیر قانونی روایت کو ختم نہیں کر سکے۔ عورت اور مرد کے بظاہر ناجائز تعلقات کو بلوچستان میں سیاہ کاری اور سندھ کے کچھ علاقوں میں کاروکاری کا نام دیا جاتا ہے اور ان قبائل اور علاقوں میں عام لوگوں کی جانب سے اس جرم کی اندھا دھند سزائے موت کو کسی حد تک جائز سمجھ کر قبول کر لیا جانا اس ظالمانہ روایت کے چلتے رہنے میں زیادہ معاون اور مددگار ہے۔ ایسے واقعات میں اکثر سردار اور با اثر افراد اپنی نجی سطح پر قائم کی گئی عدالتوں اور جرگوں کے ذریعے اسی نوعیت کے ظالمانہ اور یکطرفہ فیصلے سناتے ہیں اور خواتین اور مردوں کی جانیں تک لے لیتے ہیں۔ پاکستان کا اصل المیہ یہ ہے کہ یہاں نظام کی جڑوں میں ہمیشہ سے ہی ایسے عناصر موجود رہے ہیں جو کسی نہ کسی سطح پر ان نجی عدالتوں کے حامی و معاون ہیں یا پھر ان نجی عدالتوں کے حاکم طاقتور سرداروں کے رُوبرو کمزور اور مجبور ہوتے ہیں جو اپنے اپنے قبیلوں اور علاقوں میں ایسے ظلم روا رکھنا ضروری اور عین انصاف سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ایسے واقعات میں سے کسی ایک واقعے کی رپورٹ، اطلاع یا ثبوت پاکستان کے نسبتاً مہذب حلقوں تک آتے ہیں تو پہلے شور پڑتا ہے، پھر چند روز کے لئے ذمہ داروں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں، عدالتوں میں مقدمات چلتے ہیں اور پھر مٹی پا مٹی پا کی روایتی پالیسی پر عمل کر کے معاملات یادداشت کی ہماری ازلی کمزوری کے سپرد کر کے سرد خانے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کے ایک تازہ واقعے کی ایک ویڈیو گزشتہ دنوں وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا۔ ویڈیو یہ تھی ایک جوڑے کو پندرہ بیس مسلح افراد ایک ویران جگہ پر گولیوں کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ مجبوراً حکومت بلوچستان کو کارروائی کرنا پڑی جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت نے بھی نوٹس لے لیا اور پولیس بھی حرکت میں آ گئی۔ ابتدا میں اس واقعے سے متعلق ایس ایس پی انویسٹی گیشن ونگ سید صبور آغا نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے 11مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے دو کی باضابطہ گرفتاری عمل میں لائی گئی جبکہ باقیوں سے ابھی تفتیش جاری ہے۔ کوئٹہ کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق مقتولین کی قبر کشائی کے بعد ان کا پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا گیا ہے۔ مقتولہ خاتون کو سات گولیاں لگیں جن میں سے ایک اس کے سر پر ماری گئی جبکہ مرد کو نو گولیاں لگیں اور یہ گولیاں اس کے سینے اور پیٹ میں لگیں۔ یہ واقعہ چار جون 2025ء کو پیش آیا تھا۔ خاتون کی عمر 35برس کے قریب ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے پیر کو کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ نوبیاہتا جوڑا نہیں تھا جیسے سوشل میڈیا پر متعدد افراد نے دعویٰ کیا ہے بلکہ ان کے درمیان کوئی ازدواجی تعلق نہیں تھا۔ جو خاتون ہلاک ہوئی ہیں ان کے پانچ بچے ہیں اور جو آدمی مارا گیا ہے اس کی عمر 50سال کے قریب ہے اور اس کے بھی چار پانچ بچے ہیں۔ پولیس کی جانب سے موصول ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ کوئٹہ کے تھانہ ہنہ سے 40سے 45کلومیٹر دور سنجیدی ڈیگار نامی علاقے میں پیش آیا۔ پولیس نے 15افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا پریس کانفرنس میں مزید کہنا تھا کہ میں ہلاک ہونے والوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہوں گا لیکن حقائق بھی پاکستان کے لوگوں کو معلوم ہونے چاہئیں کیونکہ اس بارے میں مختلف افواہیں چل رہی ہیں لیکن یہ قتل ہے، جرم ہے، چاہے کچھ بھی کسی نے کیا ہو، کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اس بے دردی کے ساتھ، اس گھنانے انداز میں ویڈیوز بنا کر کسی انسان کا قتل کرنے کی نہ کوئی حکومت، نہ کوئی معاشرہ اجازت دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم نے فیصلہ دینے والے قبائلی سردار کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیرِ اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم کارروائی کر چکے ہیں، اس علاقے کے سپیشل برانچ کے ڈی ایس پی کو معطل کر دیا ہے اور اس کو اسی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے کہ اس نے حکومت کو بتانا تھا، اس کی یہ ذمہ داری ہے۔ اس کیس میں ایک شخص بھی مدعی بننے کو تیار نہیں ہے اور آپ اس حد تک اس معاشرے کی پستی کو دیکھیں کہ جب پولیس چھاپے مارنے جا رہی ہے تو خواتین ان پر پتھرائو کر رہی تھیں۔ یہاں یہ امر ذہن میں رہے کہ جو خواتین پولیس پر پتھرائو کر رہی تھیں گویا وہ ذہنی طور پر اس سزا کے حق میں تھیں جو کہ اس جوڑے کو دی گئی تھی۔
مقتول جوڑے کو قتل کرنے کی ویڈیو میں تمام لوگ براہوی زبان میں بات کر رہے ہیں اور ان کا لہجہ وہی ہے جو کہ کوئٹہ اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں بولا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا بشمول ایکس پر اس ویڈیو کو درجنوں افراد نے شیئر کیا ہے اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ ویڈیو بظاہر کسی پہاڑی مقام پر بنائی گئی ہے جہاں کچی سڑک کے اردگرد ویرانہ ہے۔ شروعات میں متعدد ویگو ڈالے اور جیپیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کے باہر دن کی روشنی میں کئی افراد موجود ہیں۔ بظاہر یہ افراد سرخ لباس اور گندمی چادر میں ملبوس ایک خاتون کو گاڑیوں سے کچھ دور کھڑا ہونے کا کہتے ہیں۔ اس دوران خاتون براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ صرف گولی کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جس کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہیں کہ ہاں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔ اس مکالمے کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو‘‘۔ یہ واضح نہیں ہے کہ قرآن خاتون کے ہاتھ میں تھا یا مرد کے جبکہ اس کے ساتھ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ خاموشی خاموشی‘‘۔ اس کے ساتھ ایک مرد گالیاں بھی دیتا سنائی دیتا ہے۔ خاتون اس کے بعد کوئی مزاحمت نہیں کرتی بلکہ خاموشی سے گاڑیوں سے دور کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس بات چیت کے بعد ویڈیو میں چند لمحوں کے لئے خاموشی چھا جاتی ہے جبکہ اس کے بعد ایک ایک کر کے چند گولیاں چلائی جاتی ہیں ۔ ویڈیو میں یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ پہلے مرد کو گولی ماری گئی یا خاتون کو تاہم پہلے مرحلے کی گولیاں چلانے کے بعد یہ آواز سنائی دی جاتی ہے کہ اس کو مار دو، جس پر بہت زیادہ گولیاں چلانے کی آواز آتی ہے۔ اس دوران ایک شخص کسی ویڈیو بنانے والے پر ناراضی کا اظہار بھی کرتا سنائی دیتا ہے، جس کے بعد خاتون پر کوئی شخص دوبارہ چند گولیاں چلاتا ہے۔ واضح رہے کہ خاتون کا یہ جملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا ہے کہ صرف گولی کی اجازت ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاتون کو گولی سے بھی بڑی کسی سزا کا خدشہ تھا۔ یا وہ صرف گولی کی سزا کو ہی قبول کر چکی تھی۔
تاہم ترجمان بلوچستان حکومت کا مزید کہنا تھا کہ ویڈیو میں دکھائی گئی بربریت انسانیت سوز ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قتل کیے جانے والے مرد اور خاتون کا تعلق ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈگاری سے تھا۔ ڈگاری کوئٹہ شہر سے اندازاً 45کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں واقع ہے۔ ڈگاری اور اس سے ملحقہ علاقے مارواڑ اور مارگٹ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ ان علاقوں میں بلوچوں کے ساتکزئی اور سمالانی قبائل کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔ ان علاقوں میں بڑی تعداد میں کوئلے کی کانیں ہیں جبکہ مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کے معاش اور روزگار کا ذریعہ بھیڑ بکریاں چرانے کا کام ہے۔ یہ علاقے انتہائی دشوار گزار ہیں۔ ان علاقوں میں کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی سرگرمیاں بھی بہت زیادہ ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق سوشل میڈیا کی وائرل ویڈیو کو دیکھنے کی بعد پولیس ٹیم کو واقعے کی تصدیق کے لئے متعلقہ علاقے میں بھجوایا گیا۔ جبکہ پولیس کے مخبر نے پولیس ٹیم کو بتایا کہ یہ واقعہ عیدالاضحیٰ سے تین روز قبل سنجیدی ڈیگاری علاقے میں پیش آیا ہے۔ اس سے مقتولین مقتولین بانو بی بی اور احسان اللہ کو سردار کے پاس فیصلے کے لئے لایا گیا۔ ایف آئی آر رپورٹ کے مطابق مقتولین کو کل پندرہ افراد تین گاڑیوں میں لے کر وہاں پہنچے۔ سردار نے فیصلے میں کہا تھا کہ بانو بی بی اور احسان اللہ کاروکاری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سردار نے انہیں قتل کرنے کا فیصلہ سنایا اور 15افراد جن میں سے دو نامعلوم ہیں، نے ملکر آتشیں اسلحے سے سنجیدی میدانی میں بانو بی بی اور احسان اللہ کو کاروکاری کے الزام میں قتل کر دیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ان افراد نے مقتولین کی ویڈیو بھی ساتھ ساتھ بنائی اور واقعے کے 35دن بعد اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ پولیس نے سردار کے فیصلے پر عمل کرنے والے 15افراد کے خلاف بانو بی بی اور احسان اللہ کو قتل کرنے اور اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے لوگوں میں خوف و حراس پھیلانے کی کوشش کرنے کے جرم میں دفعہ 302اور انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 7اے ٹی اے سمیت دیگر دفعات کو شامل کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے مطابق ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد ریاست کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور اب تک ایک مشتبہ قاتل گرفتار ہو چکا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے ایکس اکائونٹ پر ایک اور پیغام میں دعویٰ کیا کہ اب تک 11ملزم گرفتار کیے جا چکے ہیں، آپریشن جاری ہے۔ تمام ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہے۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر میجر ریٹائرڈ مہراللہ بادینی نے کہا کہ اس ویڈیو کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ ویڈیو گزشتہ روز منظرِعام پر آئی تھی جس کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے کر اس بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی ابتدائی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ اس علاقے کا تعین کیا جا رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا یہ کوئٹہ کا علاقہ مارواڑ ہے یا ضلع مستونگ میں دشت کا علاقہ ہے۔ بہرحال پاکستان میں رائج نظام کے حوالے سے مقتولہ خاتون کا یہ جملہ غور طلب ہے کہ صرف گولی کی اجازت ہے۔

سی ایم رضوان

جواب دیں

Back to top button