ناکام معاشی پالیسی کا تسلسل جاری ؟

ناکام معاشی پالیسی کا تسلسل جاری ؟
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
خان حکومت کے خاتمے کے بعد جن کو اقتدار ملا، انہوں نے ایک ایسا بیانیہ عوام کے سامنے رکھا کہ اگر عمران خان مزید وزیرِاعظم رہتا تو ملک دیوالیہ ہو جاتا، اس بیانیے کو بڑی محنت اور شدت سے زد عام کیا گیا۔ عام آدمی کو معیشت کے دیوالیہ پن کی گہرائی کا کیا علم، وہ تو سارا دن دو وقت روٹی کے لیے مشکل میں ہے، مگر وہ لوگ جو ان بیانات کی اصل حقیقت اور سمت کو سمجھتے تھے، انہوں نے اربوں روپے کمائے اور ساتھ ہی حکومتی خزانے کو بھی اربوں کا نقصان پہنچایا۔ ڈالر کا افغانستان کی جانب مارچ، چینی کے ٹرکوں، گندم کے ٹرکوں اور موچھوں والوں کی موجیں رہیں ۔ بھائی کے ساتھ لندن میں مشاورت جاری کئی دن بعد یہ سلسلہ ختم ہوا، حکمرانوں کی پالیسیاں اور بیانیے شاید ہی کبھی کامیابی کے قابل رہے ہوں جنہیں سراہا جا سکے۔ کوئی بھی باشعور معیشت دان ان پالیسیوں پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اب فنانس ایکٹ 2025نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، اس قانون کے تحت ہر وہ شہری جو ماہانہ دو لاکھ یا اس سے زائد رقم بینک کے ذریعے منتقل کرے گا، اسے اپنی آمدن کی تفصیل دینی ہو گی۔
سوال یہ نہیں کہ یہ قانون درست ہے یا غلط، اصل سوال یہ ہے کہ آیا یہ قانون پاکستان کی موجودہ معاشی ساخت میں قابلِ عمل بھی ہے یا نہیں۔ حکومت معاشی سرگرمیوں میں بہتری لانے کی خواہاں تو ہے، مگر فنانس ایکٹ جیسا اقدام اس وقت کیسے مثبت ثابت ہو سکتا ہے جب عوام پہلے ہی مہنگائی، بے یقینی اور حکومتی وعدہ خلافیوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایک طرف معیشت کو بہتر بنانے کے دعوے، بیرونی سرمایہ کاری کے وعدے اور دوسری طرف ایف بی آر کو یہ اختیار دینا کہ وہ دو لاکھ یا اس سے زائد کی ہر ٹرانزیکشن پر سوال اٹھا سکے، عوام کو ایک ایسے نظام میں دھکیل رہا ہے جہاں ایف بی آر کا نام سن کر ہی شہری خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ بینکوں کو اس قانون کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ٹرانزیکشنز کی رپورٹ ایف بی آر کو فراہم کریں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے بینکاری نظام میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہر مشکوک لین دین کی بروقت اور موثر نگرانی اور رپورٹنگ کر سکے؟۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کتنے ہی غریبوں کے نام پر اربوں روپے کے جعلی کھاتے کھولے گئے۔ عام شہری کے لیے یہ قانون ایک نیا عذاب بننے جا رہا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو کاروباری معاملات میں نقدی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں، اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کی شادی کے لیے رقم نکالتا ہے یا کوئی دکاندار سپلائر کو ادائیگی کرتا ہے، تو کیا ہر بار اس سے وضاحت طلب کی جائے گی؟، اور اگر دی گئی وضاحت ایف بی آر کو مطمئن نہ کر سکی تو پھر کیا ہو گا؟۔ اس قانون کی اصل روح تو یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے، کالے دھن کا سدباب اور کرپشن پر قابو پایا جائے، مگر یہ سب تبھی ممکن ہے جب ایف بی آر خود شفاف، ایماندار، جدید ٹیکنالوجی کا حامل اور باقی اداروں سے ہم آہنگ ہو۔ اگر ایف بی آر اور متعلقہ اداروں کے افسر وہی پرانے ہتھکنڈے، رشوت، سفارش اور فائل دبائو کی روش اپنائے رکھیں گے تو یہ قانون عوام کے لیے محض مذاق ہو گا۔ اس ایکٹ کے تحت 20.79فیصد شرح سے ٹیکس وصولی کو قانونی جواز دیا جا چکا ہے، یعنی اگر آپ نے دو لاکھ یا اس سے زائد کی ٹرانزیکشن کی تو وضاحت کے ساتھ ساتھ بھاری ٹیکس بھی دینا ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری، جو پہلے ہی مہنگائی، بجلی، گیس، پٹرول اور روپے کی گرتی قیمت سے پریشان ہے، وہ اس نئے بوجھ کو کیسے برداشت کرے گا؟۔
اگر ٹیکس اصلاحات کے نام پر ایسا بوجھ ڈالا جائے جو عوام کی استطاعت سے باہر ہو، تو لوگ نظام سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ اگر قانون کا مقصد واقعی اصلاح ہے، تو پہلے عوامی اعتماد اور روزگار بحال کرنا ہو گا ، ورنہ یہ قانون بھی ماضی کے ان کمیٹیوں میں شامل ہو جائے گا جو صرف کاغذوں تک محدود ہیں، فنانس ایکٹ 2025ایک موقع ہو سکتا ہے کہ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے، مگر سوال یہی ہے کہ کیا یہ بوجھ غریب اور چھوٹا تاجر برداشت کر سکے گا؟۔
عوامی حالات بتائیں گے کہ دو لاکھ کی ٹرانزیکشن پر ایف بی آر واقعی عوامی مفاد کے لیے ہے یا محض معاشی بحران کو مزید گہرا کرنے کے لیے ہے۔ حکومتیں ایسی پالیسیاں بناتی ہیں جن سے روزگار بڑھے، بچتوں میں اضافہ ہو اور ملک میں کاروباری رجحان فروغ پائے تاکہ معیشت مستحکم ہو، لیکن جب حکومتیں جھوٹے بیانیوں اور وقتی منصوبوں سے اپنا فائدہ نکالنے لگیں تو انجام احتساب، عدالتوں اور مقدمات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کی طرف سے خود کو مظلوم ثابت کرنے کا ایک آزمودہ، لیکن فرسودہ فارمولا بار بار چلایا جا رہا ہے۔