سویدا میں اسرائیلی مداخلت

سویدا میں اسرائیلی مداخلت
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
شام کا سویدا صوبہ، جو کبھی اپنی دروز ثقافت کی گہری جڑوں اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے مشہور تھا، آج ایک ایسی دلدل میں پھنسا ہے جہاں متنازع جھڑپیں، سیاسی خلا، اور بین الاقوامی مداخلت نے اسی بدترین شورش زدہ علاقہ بنا دیا ۔ بشار الاسد کی روس فرار نے شام کو ایک نئے دور کی دہلیز پر لا کھڑا کیا، توقع کی جا رہی تھی نیا دور امن سے جڑے گا لیکن بدقسمتی سے یہ انتشار کا حامل ثابت ہوا۔ سویدا میں دروز اور بدوی قبائل کے درمیان جھڑپیں جو صرف خونریزی تک محدود نہیں بلکہ شام کے مستقبل کی کشمکش کا منظر نامہ بھی پیش کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں نئی قیادت کے تحت صدر احمد الشرع کی کوششیں اور اسرائیل کی متنازع مداخلت سے شام کے اس نازک موڑ کی پیچیدگیوں کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔
سویدا، شام کا ایک جنوبی صوبہ، اپنی دروز اکثریت کے لیے مشہور ہے۔ تخمینوں کے مطابق شام کی کل آبادی کا 3سے 4فیصد، یعنی تقریباً 700000سے 800000دروز، زیادہ تر سویدا اور جبل السماق کے 14دیہاتوں میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ، گولان کی پہاڑیوں کے شامی حصے میں تقریباً 20000دروز موجود ہیں۔ دوسری طرف، بدوی قبائل، جو شام کے صحرائی اور دیہی علاقوں، خاص طور پر مشرقی اور شمالی شام میں رہتے ہیں، کی تعداد چند لاکھ تک ہو سکتی ہے، لیکن ان کی نقل مکانی کی وجہ سے درست اعداد و شمار کا تعین مشکل ہے۔ یہ قبائل شام کی آبادی کا 5سے10 فیصد حصہ ہیں۔ جولائی 2025ء میں سویدا میں دروز اور بدوی قبائل کے درمیان جھڑپوں نے ایک ایسی آگ بھڑکائی جو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گئی۔
شام کی سرزمین صدیوں سے تنوع کا گہوارہ رہی ہے۔ دروز، علوی، سنی اور دیگر فرقوں نے اسے ایک ایسی ثقافتی رنگین چادر سے سجایا جو اپنی ہم آہنگی کے لیے مشہور تھی۔ لیکن بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد تنازع نے نیا رخ اختیار کرلیا۔ سویدا، جو گولان ہائٹس اور اردن کی سرحدوں کے قریب واقع ہے، اپنی دروز اکثریت کی وجہ سے ہمیشہ سے ایک حساس خطہ رہا ہے۔ یہاں دروز اور بدوی گروہوں کے درمیان حالیہ جھڑپوں نے ایک ایسی آگ بھڑکائی جو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو متاثر کرنے کا باعث بن گئی۔ شامی وزارت صحت کے مطابق 260افراد ہلاک ہوئے، جبکہ شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق نے اس تعداد کو 900سے زائد بتایا۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن نے رپورٹ کیا کہ 80000افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر دربدر ہوئے۔ یہ اعداد و شمار صرف تعداد نہیں، بلکہ امن کے ٹوٹتے خوابوں کی داستان ہیں۔ یہ اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ شام ابھی تک اپنے ماضی کے سائے سے نکل نہیں پایا۔
احمد الشرع، جو کبھی ابو محمد الجولانی کے نام سے ایک باغی رہنما تھے، جنوری 2025ء میں شام کے صدر بنے۔ سویدا کا بحران ان کے لیے ایک امتحان ہے جو ان کی قیادت کے جوہر کو پرکھ رہا ہے۔ الشرع نے 19جولائی 2025ء کو ایک جامع جنگ بندی کا اعلان کیا، مقامی عمائدین سے مشاورت کے بعد، جو اس خطے کی ثقافتی گہرائیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سویداشام کا اٹوٹ حصہ ہے اور دروز اس قوم کا بنیادی ستون ہیں۔ ان کی یہ بات نہ صرف ایک سیاسی بیان بلکہ ایک ایسی آواز ہے جو شام کے تنوع کو بچانے کی خواہش رکھتی ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی، دروز کے تحفظ کا عہد، اور غیر قانونی گروہوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کا وعدہ، یہ سب الشرع کے اس عزم کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ شام کو ایک نئے دور کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ مارچ 2025ء میں انہوں نے ایک عبوری حکومت بنائی، جس میں علوی، دروز، اور دیگر کمیونٹیز کے نمائندوں کو شامل کیا گیا، تاکہ شام کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ لیکن سویدا میں جاری جھڑپیں یہ بتاتی ہیں کہ امن کی راہ اتنی آسان نہیں۔
اس بحران میں اسرائیل کی مداخلت نے ایک نیا موڑ پیدا کیا۔ اسرائیل نے جولائی 2025ء میں شامی فوجی اہداف پر فضائی حملے کیے، جن میں دمشق کی وزارت دفاع بھی شامل تھی۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ حملے دروز کمیونٹی کے تحفظ کے لیے تھے، کیونکہ اسرائیل کی اپنی دروز کمیونٹی سے گہرے تاریخی اور ثقافتی روابط ہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی صرف انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے؟ اسرائیل کے مفادات گولان ہائٹس کے قریب استحکام اور ایران جیسے مخالفین کے اثر و رسوخ کو روکنے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے یہ اقدامات علاقائی بالادستی کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ امریکی ثالثی میں ایک جنگ بندی ہوئی، اور اسرائیل نے شامی فوجیوں کو سویدا میں محدود رسائی دی، لیکن شام اور متحدہ عرب امارات نے ان حملوں کو خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اسرائیل کی جانب سے دروز کے لیے طبی امداد کی فراہمی ایک طرف اس کی ہمدردی کو ظاہر کرتی ہے، لیکن دوسری طرف اس کے اسٹریٹجک مقاصد پر سوالات اٹھاتی ہے۔ سویدا کی سرحد گولان ہائٹس سے ملتی ہے، اور یہ خطہ اسرائیل کے لیے اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے۔ کیا اسرائیل واقعی دروز کی فکر میں ہے، یا یہ اس کی اپنی سیکیورٹی اور اثر و رسوخ کی جنگ ہے؟
سویدا کا بحران صرف ایک مقامی تنازع نہیں، بلکہ شام کے مستقبل کی تصویر ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں شام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے تنوع کو ایک طاقت بنائے گا یا اسے اپنی تباہی کا سبب بننے دے گا۔ الشرع کی قیادت اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ ان کا یہ عزم کہ وہ دروز سمیت تمام شامیوں کو ایک چھت تلے جمع کریں گے، لیکن اس کے لیے نہ صرف داخلی ہم آہنگی بلکہ بین الاقوامی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی مداخلت، جو ایک طرف دروز کے تحفظ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف شام کی خودمختاری کو چیلنج کرتی ہے، اس خطے کی پیچیدگیوں کو مزید بڑھاتی ہے۔ شام کی سرزمین پر ہونے والی یہ کشمکش نہ صرف اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے مستقبل پر اثرات مرتب کرے گی۔
شام کا مستقبل اس پل پر کھڑا ہے جہاں الشرع کی قیادت، اسرائیل کی حکمت عملی، اور سویدا کے لوگوں کے درمیان مفادات کا ٹکرائو ہے۔ اسرائیل کی مداخلت اور علاقائی طاقتوں کی کشمکش اسے ایک ایسی شطرنج کی بساط پر لے آئی ہے جہاں ہر چال سوچ سمجھ کر اٹھانی پڑتی ہے۔ شام کا مستقبل اسی امید پر ٹکا ہے کہ وہ اپنے تنوع کو اپنی طاقت بنائے، نہ کہ اپنی کمزوری۔