Column

ٹرمپ اسرائیل کو چھوڑ گیا

ٹرمپ اسرائیل کو چھوڑ گیا
تحریر : سی ایم رضوان
ایران اسرائیل جنگ میں ٹرمپ کی ہمدردیاں عنقریب بدل جائیں گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل، ایران سے جنگی حوالے سے کافی کمزور ہے۔
پانچ روز قبل اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ چھڑنے کے بعد زیادہ تر افراد کے ذہنوں میں سوال آتا ہے کہ دونوں روایتی حریف ممالک میں سے کس کے پاس زیادہ عسکری طاقت ہے اور کون سا ملک اپنے دفاع میں زیادہ مضبوط ہے۔ اس سوال کا درست جواب تو جنگ کے بعد ہی ملے گا۔ تاہم دونوں ممالک کے پاس عسکری جوہری طاقت سمیت دونوں کے بجٹ اور دونوں ممالک کے پاس موجود جنگی آلات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (IISS)کی ’’ دی ملٹری بیلنس 2023‘‘ کی رپورٹ اور دیگر معتبر ذرائع کے مطابق ایران کے پاس 610000فعال فوجی اہلکار ہیں، جن میں 350000فوج میں، 190000پاسدارانِ انقلاب میں، 18000بحریہ میں، 37000فضائیہ میں اور 15000ایئر ڈیفنس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کے پاس 350000کی ریزرو فوج بھی ہے، یعنی مذکورہ اہلکار متحرک فوج کا حصہ نہیں لیکن ضرورت پڑنے پر انہیں کبھی بھی بلایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ایران میں 18سال اور اس سے زائد عمر کے ایرانی مردوں کے لئے کچھ معافیوں کے ساتھ فوجی خدمات لازمی ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس 169500فعال فوجی اہلکار ہیں، جن میں سے 126000فوج میں، 9500بحریہ میں اور 34000فضائیہ میں شامل ہیں۔ اسرائیل کے پاس 465000 کی ریزرو فوج ہے اور اسرائیل میں بھی 18سال سے زائد عمر کے بیشتر نوجوان مرد اور خواتین کے لئے فوجی خدمات لازمی ہیں، تاہم وہاں بھی بعض معاملات پر کچھ افراد کو چھوٹ حاصل ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی اپریل 2024ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے 2023ء میں 10.3بلین ڈالر خرچ کیی، جو 2022ء کے مقابلے میں 0.6فیصد زیادہ تھے۔ اسی طرح اسرائیل نے 2023ء میں 27.5بلین ڈالر خرچ کیے، جو 2022ء کے مقابلے میں 24فیصد زیادہ تھے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ 7اکتوبر 2023ء کے بعد فلسطین پر اسرائیلی حملے ہیں۔ الجریزہ کے مطابق دی ملٹری بیلنس 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کے پاس کم از کم 10513جنگی ٹینک، 6798
توپیں اور 640سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ فوج کے پاس 50ہیلی کاپٹر جبکہ پاسدارانِ انقلاب کے پاس پانچ ہیلی کاپٹر ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے پاس تقریباً 400جنگی ٹینک، 530توپیں اور 1190سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ اسی طرح دی ملٹری بیلنس 2023ء کے مطابق ایرانی فضائیہ کے پاس 312جنگی طیارے ہیں اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس مزید 23 طیارے ہیں۔ فضائیہ کے پاس دو حملہ آور ہیلی کاپٹر، فوج کے پاس 50اور پاسدارانِ انقلاب کے پاس پانچ ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی فضائیہ کے پاس 345جنگی طیارے اور 43حملہ آور ہیلی کاپٹر ہیں۔ 2023ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کے پاس 17ٹیکٹیکل آبدوزیں، 68گشتی اور ساحلی جنگی جہاز، سات کارویٹ، 12لینڈنگ بحری جہاز، 11لینڈنگ کرافٹ، اور 18لاجسٹک اور سپورٹ گاڑیاں ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے پاس پانچ آبدوزیں اور 49گشتی اور ساحلی جنگی جہاز ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کا فضائی دفاع آئرن ڈوم سسٹم پر انحصار کرتا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے متعدد بار ایران کے بیشتر میزائلوں کو روکا۔ یہ نظام ایک ریڈار سے لیس ہے جو آنے والے میزائل کا پتہ لگاتا ہے اور اس کی رفتار اور سمت کا تعین کرتا ہے، اس کے بعد کنٹرول سینٹر یہ حساب لگاتا ہے کہ آیا میزائل اسرائیلی شہروں کے لئے خطرہ ہے یا نہیں۔ جو میزائل خطرہ نہیں ہوتے، انہیں خالی میدانوں میں گرنے دیا جاتا ہے، اگر خطرہ ہو تو، میزائل فائرنگ یونٹ اسے مار گرانے کے لئے میزائل داغتا ہے۔ اسرائیل بھر میں 10آئرن ڈوم بیٹریاں نصب ہیں، دیگر نظام درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو روکتے ہیں۔ ڈیوڈ سلنگ 40سے 300کلومیٹر تک کے میزائلوں کو روکتا ہے، جبکہ ایرو سسٹم 2400کلومیٹر تک کی رینج والے میزائلوں کو روک سکتا ہے۔ ایرانی دفاع نظام کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ فروری 2025ء میں ایران نے کم فاصلے اور کم اونچائی والے آذرخش ( فارسی میں ’’ بجلی‘‘ ) دفاع سسٹم کو تعینات کیا تھا۔ یہ ایک انفراریڈ ڈیٹیکشن سسٹم ہے جو ریڈار اور الیکٹرو آپٹک سسٹمز سے لیس ہے تاکہ اہداف کا پتہ لگا کر انہیں روکا جا سکے، اسے گاڑیوں پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ ایران کے پاس مختلف قسم کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل دفاعی نظام موجود ہیں، جن میں 42سے زائد طویل فاصلے تک مار کرنے والے روسی ساختہ S۔200، S۔300اور مقامی باور۔373شامل ہیں۔ 59سے زائد سسٹم درمیانے فاصلے کے امریکی MIM۔23ہاک، HQ-2Jاور خرداد۔15 اور 279کم فاصلے کے چینی ساختہ CH-SA-4اور 9K331 Tor-M1جیسے نظام شامل ہیں۔ سمریکی تھنک ٹینک سینٹر فاراسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کے مطابق ایران کے پاس کم از کم 12مختلف قسم کے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ ان میں فتندر 69( رینج 150کلومیٹر) سے لے کر خرمشہر اور سجیل ( رینج 2000کلومیٹر تک) شامل ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے پاس کم از کم چار مختلف قسم کے چھوٹے، درمیانے اور درمیانی رینج کے بیلسٹک میزائل ہیں، جن میں LORA(رینج 280کلومیٹر) سے لے کر جیریکو ۔3(رینج 4800سے 6500کلومیٹر) شامل ہیں۔ امریکی ادارے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق، اسرائیل کے پاس اندازاً 90جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسی طرح ایران کے پاس جوہری ہتھیار ہونے کا امکان نہیں ہے لیکن اس کا جوہری پروگرام جدید ہے اور وہ کئی جوہری تنصیبات اور تحقیقی مراکز چلاتا ہے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں ایک مذہبی فتوے کے ذریعے ہتھیاروں کی تیاری پر پابندی عائد کر دی تھی اور کہا تھا کہ یہ اسلام میں حرام ہے۔ تاہم، مئی 2025ء میں ایران نے دھمکی دی تھی کہ اگر ایران کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ اپنی جوہری پالیسی تبدیل کر سکتا ہے۔ ایران کی اسی دھمکی یا اسٹریٹجی کی بنا پر ہی اسرائیل نے یہ حملہ کیا ہے اور اسی بناء پر وہ ایران کو تباہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ایک طرف تو اس کی جنگی طاقت ایران کے مقابلے میں کمتر ہے اور دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی اس دفعہ مختلف ہے۔ وہ اب یہودیوں کو ان کی من مانیوں کے ساتھ خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ یہودی لابی کی حالیہ قتل و غارتگری اور جنگی پالیسیوں سے در پردہ متفق نہیں ہیں اور یہی دور حاضر کا حیران کن موڑ ہے کہ امریکہ اسرائیل کو چھوڑنے جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی یہود دشمنی کا چرچا5جولائی 2016ء کو بھی ہوا تھا جب امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی ممکنہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ ان کے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر چھ کونوں والے ستارے پر مشتمل ایک پیغام’’ واضح طور پر یہود دشمنی‘‘ پر مبنی تھا۔ اس ٹویٹ میں سٹار آف ڈیوڈ سے ملتی جلتی ایک شکل اور نقدی کے ڈھیر کے ساتھ ہلیری کلنٹن کو بدعنوان ترین امیدوار بیان کیا گیا تھا۔ اس پوسٹ کو بعد ازاں حذف کر دیا گیا اور اس نعرے کو ستارے کے بجائے دائرے کے ساتھ دوبارہ پوسٹ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس کا یہودیت کی علامت سٹار آف ڈیوڈ کے ساتھ موازنہ بددیانتی پر مشتمل ہے۔ دی مائیک ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ یہ تصویر پہلی بار یہود دشمنی اور سفید فام بالادستی پر مبنی ایک میسج بورڈ پر دیکھا گیا تھا جبکہ ہیلری کلنٹن کی مہم ٹیم نے امریکی میڈیا کو بتایا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نسلی تعصب والی ویب سائٹس کے ذریعے یہود دشمنی والی تصاویر کا کھلم کھلا استعمال خاصا پریشان کن ہے۔ اپنے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام سا ستارہ تھا، جو عام طور پر پولیس اہلکار استعمال کرتے ہیں اور یہود دشمنی کے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ انہوں نے ہیلری کلنٹن پر اپنے شوہر کی امریکی اٹارنی جنرل سے ملاقات کے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے بھی سوشل میڈیا پر نسلی تعصبانہ خیالات کی پذیرائی کرنے پر تنقید کا نشانہ بن چکے تھے۔ یاد رہے کہ سال 2025ء کے آغاز میں کوکلس کلان نامی گروہ کے سربراہ ڈیوڈ ڈیوک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی تھی جس سے ان کی جانب سے فوراً لاتعلقی کا اظہار نہ کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔ اب بھی اسرائیل کو جبکہ ایران کے ہاتھوں مار پڑ رہی ہے تو کسی بھی وقت ٹرمپ کے بیانات بدل سکتے ہیں جبکہ یہود دوستی کے حوالے سے ان کے خیالات تو عرصہ ہوا بدل چکے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button