Column

فتنہ الہند کی سرپرستی میں پراکسی وار

فتنہ الہند کی سرپرستی میں پراکسی وار
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
بلوچستان ریت کا وہ ذرا سا ٹکڑا نہیں جسے دنیا محض نقشے میں دیکھ کر گزر جائے۔ یہ وہ مٹی ہے جو سونا اگلتی ہے، جہاں کے لوگ، زبانیں اور روایتیں خود سے محبت کی سند لیے پھرتی ہیں۔ مگر نجانے کیوں یہ سرزمین آج بھی سازشوں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے۔ وہ زخم جو برسوں پرانے ہیں، جن پر کبھی مرہم رکھا گیا نہ جنہیں کھل کر دکھایا گیا، آج پھر سے تازہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، سب سے زیادہ محروم اور سب سے زیادہ دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں نے بارہا اس حقیقت کو دنیا کے سامنے رکھا ہے کہ بلوچستان کے اندرونی مسائل کو سرحد پار سے آنے والی ہواں نے نہ صرف سلگایا بلکہ شعلے بھی بھڑکائے۔ بھارت کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں پراکسی وار کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، وہ اب کسی افسانے یا سازشی تھیوری کا حصہ نہیں رہا، بلکہ زمینی حقائق اور ثبوتوں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن آرمی جیسے گروہ، جنہیں ماضی میں چند سرپھرے نوجوانوں کی بغاوت سمجھا جاتا تھا، آج بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی صف میں آچکے ہیں۔ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے بارہا اس بات کے شواہد فراہم کیے کہ ان گروہوں کو نہ صرف فنڈنگ، اسلحہ اور تربیت بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ کے ذریعے ملتی ہے بلکہ ان کے آپریشنل مراکز بھی اکثر افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں قائم ہیں۔
بلوچستان کی کہانی اس وقت ایک نئے موڑ پر پہنچی جب 2016ء میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس گرفتاری نے نہ صرف بھارت کے عزائم کو بے نقاب کیا بلکہ پاکستان کے اس موقف کو بھی تقویت دی کہ بلوچستان میں بدامنی ایک بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یادیو کے اعترافی بیانات، اس کا بھارتی پاسپورٹ، ایران سے بلوچستان میں داخلے کے شواہد، اور اس کے نیٹ ورک کے تانے بانے، سب کچھ اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی ریاستی سطح پر بھارتی پراکسی وار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ بات بھی اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ فتنہ الہند نے افغانستان کے قونصل خانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جلال آباد، قندھار اور ہرات میں قائم بھارتی قونصل خانے بلوچستان میں تخریب کاری اور بدامنی کے لیے اہم مراکز بن چکے تھے۔ متعدد بار پاکستانی سیکورٹی اداروں نے افغان سرحد سے ملنے والے اسلحے کے ذخائر، بھارتی ساختہ بارودی مواد، اور گرفتار دہشت گردوں کے اعترافات عالمی برادری کے سامنے رکھے مگر ہر بار سیاسی مصلحتوں کے شکار عالمی ضمیر نے نظریں چرالیں۔ حیرت اس امر پر ہے کہ جو دنیا دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی بات کرتی ہے، وہ جنوبی ایشیا میں بھارتی ریاستی دہشت گردی پر خاموش کیوں ہے؟
سی پیک اور گوادر کا نام آتے ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا گراف تیزی سے اوپر جاتا ہے۔ فتنہ الہند کے لیے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ اگر سی پیک کامیاب ہو گیا تو پاکستان نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہو جائے گا بلکہ چین کی رسائی بھی بحر ہند تک آسان ہو جائے گی۔ اسی لیے بلوچستان میں چینی انجینئرز پر حملے، گوادر پورٹ کو نشانہ بنانے کی سازشیں، اور سی پیک کے روٹس پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ پاکستان کے دانشور حلقے، خود عسکری قیادت اور سیاسی زعما اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ماضی میں وفاق کی عدم توجہی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور سیاسی محرومیاں رہی ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بھارت نے انہی داخلی خامیوں کو اپنا ہتھیار بنا کر ایک پوری نسل کو مسلح اور منفی نظریاتی جنگ کا ایندھن بنایا۔ بھارتی میڈیا ہو یا انسانی حقوق کی تنظیمیں، سب نے بلوچستان کے نام پر پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ خود بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے یومِ آزادی کی تقریر میں بلوچستان کا ذکر کر کے پاکستان کو براہِ راست چیلنج کیا۔ یہ محض بیان نہیں، بلکہ پاکستان کے خلاف پراکسی وار کی سرکاری پالیسی کا اعلانیہ ہے۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز کی قربانیاں شاید ہی دنیا میں کسی نے اس سطح پر دی ہوں۔ بلوچستان میں ایف سی، پولیس اور فوج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردی کے نیٹ ورک کو کئی بار توڑا، مگر جب دشمن ریاستی سرپرستی میں جدید اسلحہ، فنڈنگ اور تربیت فراہم کرے تو یہ جنگ طویل اور پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ خضدار سے لے کر تربت تک، مکران سے لے کر کوئٹہ تک ہر وہ مقام جہاں امن کا خواب دیکھا گیا، وہاں دشمن نے موت بانٹی۔ بھارتی پراکسی وار کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس نے پورے خطے کے امن کو دائو پر لگا دیا ہے۔ افغانستان میں بھارتی مداخلت، ایران کے سرحدی علاقوں میں بھارتی نیٹ ورک اور وسط ایشیا تک پھیلتی سازشیں، سب کچھ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ پورے خطے کا ہے۔ اگر آج بلوچستان میں بھارتی پراکسی کو روکا نہ گیا تو کل یہی آگ وسط ایشیا اور چین تک پھیل سکتی ہے۔
بلوچستان کا حل داخلی اصلاحات، مفاہمت اور موثر خارجہ پالیسی میں ہے۔ پاکستان کی حالیہ حکومتوں نے صوبے میں ترقیاتی پیکجز، تعلیمی ادارے، صحت کی سہولیات اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ کئی ناراض بلوچ رہنماں اور نوجوانوں نے ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اگر ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے، اعتماد بحال کرے اور سیاسی و معاشی حقوق دے تو بیرونی سازشیں دم توڑ دیتی ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ دشمن کے وار ہر بار انداز بدل کر آتے ہیں، اس لیے پاکستان کو اپنی سکیورٹی پالیسی کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط، علاقائی سفارتکاری کو فعال اور سی پیک کے تحفظ کے لیے چین سمیت دوست ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھانا ہوگا۔
بلوچستان کی حفاظت، پاکستان کی حفاظت ہے۔ بھارت نے اس صوبے میں پراکسی وار کے ذریعے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کیا، مگر پاکستانی قوم اور ریاست اپنی مٹی کی حفاظت کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔ یہ جنگ صرف اسلحے کی نہیں، بلکہ نظریے، اعتماد اور حق و سچ کی ہے۔ دنیا کو ماننا ہوگا کہ بلوچستان کی آگ کو ہوا دینے والے ہاتھ سرحد پار اور ان کے سہولت کار معصومیت کا لبادہ اوڑے یہاں بیٹھے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button