ColumnTajamul Hussain Hashmi

کان کے کچے ہونے کے نقصانات

تجمل حسین ہاشمی
کتاب: سیاسی کہانیاں سٹوری 5، مصنف: تجمّل ہاشمی۔ شیر افضل مروت کے حالیہ بیان پر میڈیا کو شاید کوئی حیرت نہ ہوئی ہو، خان کے چاہنے والوں کو بھی کوئی حیرانی نہیں ہوگی کہ خان مشاورت میں کمزور ہے یا پھر اپنے من پسند افراد کی سوچ کو پسند کرتا ہے لیکن وہ اکیلے ضرور حیران تھے کہ عمران خان بھی کانوں کے کچے نکلے۔ مروت صاحب، یاد رکھئے کہ میکاولی کا کہنا ہے: ’’سیاست میں اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں ہوتا، وہاں صرف مفادات ہوتے ہیں۔‘‘ ماضی میں جناب آصف علی زرداری کا بھی اسی نوعیت کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ کانوں کا کچا ہونا دراصل ہر بات کو بغیر تحقیق و تصدیق تسلیم کر لینے کا رویہ ہے، جس کے نقصانات تاریخ کے اوراق میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ صدام حسین نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ایک اجلاس میں 60سے زائد اعلیٰ عہدیداروں کو غداری کے الزام میں گرفتار کرایا۔ ان میں سے کئی کو فوری طور پر سزائے موت دیدی گئی، بعد میں معلوم ہوا کہ اکثر بے گناہ تھے اور صرف سازشوں کا شکار بنے۔
ایران پر حملے کا فیصلہ اس مفروضے پر کیا گیا کہ ایرانی فوج کمزور ہوچکی ہے اور آسانی سے شکست کھا جائیگی۔ نتیجتاً آٹھ سالہ جنگ نے دونوں ممالک کی معیشت کو تباہ کر دیا اور لاکھوں انسان مارے گئے۔ گلف وار میں بھی عراق کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، اور 1988میں حلبجہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے عراق کو عالمی سطح پر بدنام کر دیا، جب کہ ہزاروں بے گناہ کرد شہری مارے گئے۔ اسی قسم کا ایک اور افسوسناک باب چین میں رقم ہوا، جب مائو زے تنگ نے ’’عظیم جست "(Great Leap Forward)کے نام سے زرعی و صنعتی ترقی کی مہم شروع کی، مگر بغیر سائنسی بنیاد اور ماہرین کی مشاورت کے، کسانوں کو زبردستی لوہے کی بھٹیاں بنانے اور غیر فطری زرعی طریقے اپنانے پر مجبور کیا گیا، جس سے زراعت تباہ ہوگئی۔ اسی طرح، چڑیوں کو فصلوں کی دشمن سمجھ کر ان کے خاتمے کی مہم چلائی گئی، جس کے نتیجے میں کیڑے مکوڑوں کی بھرمار ہوئی اور قحط کا سامنا کرنا پڑا۔ کروڑوں لوگ بھوک سے مر گئے۔ 1966 سے 1976تک ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے دوران لاکھوں افراد کو بغیر کسی ثبوت کے ’’دشمن انقلاب‘‘ قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ نوجوانوں کو ’’سرخ محافظ‘‘ کے طور پر منظم کیا گیا، جنہوں نے اساتذہ، دانشوروں اور فنکاروں پر حملے کئے۔ تعلیمی نظام برباد ہوگیا اور چین سیاسی و معاشی عدم استحکام کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہی روش ہماری سیاست میں بھی پائی جاتی ہے۔ کئی قومی فیصلے بغیر تحقیق، مشاورت یا تصدیق کے کئے
گئے، جن کے نتائج قوم کو آج تک بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کرکے حالات مزید خراب کئے۔ بھارتی مداخلت کو کم سمجھا گیا، اور نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں نکلا۔ جنرل ضیا الحق نے افغان جنگ میں شمولیت اختیار کی، جس سے ملک کو منشیات، اسلحہ، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن سے ہم آج تک نبرد آزما ہیں۔ میاں نواز شریف نے بھی بعض مواقع پر بغیر مکمل تحقیق و مشاورت فیصلے کئے، مثلاً پرویز مشرف کو ہٹانے کی کوشش، جس سے نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ جمہوری نظام بھی کمزور ہوا۔ عمران خان پر بھی یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بعض فیصلے بغیر ثبوت کے کئے، جیسے امریکی سازش کا بیانیہ، جس سے سیاسی عدم استحکام نے جنم لیا، ملک ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار ہوا، اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج متاثر ہوا۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے کمزور اور جذباتی فیصلوں سے بھری پڑی ہے، جن میں کچن کیبنٹ، ذاتی اختلافات یا محض سنی سنائی باتوں پر انحصار کیا گیا۔ ان فیصلوں کا خمیازہ پوری قوم کو سیاسی، معاشی اور سکیورٹی مسائل کی شکل میں اٹھانا پڑا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ قومی فیصلے جذبات نہیں بلکہ تحقیق، پارلیمانی مشاورت، ماہرین کی رائے، اور حساس اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں کئے جائیں۔ چھ کنالز جیسے مسائل کا اٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ فیصلوں میں مشاورت کا فقدان ہے۔ یہی فقدان ملک میں تقسیم و تفریق کو جنم دیتا ہے، جو قومی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کا حل صرف بروقت انصاف، سنجیدہ مکالمے، اور وسیع المشورہ قومی پالیسی سازی میں پوشیدہ ہے لیکن ہماری قومی پالیسی فرد کی تبدیلی کے ساتھ ہی تبدیل ہو جاتی ہے، قومی منصوبوں کی تکمیل اس لئے کھٹائی کا شکار رہی کیوں کہ سیاسی جماعتوں اور فیصلہ سازوں کی ہم آہنگی میں مشاورت کا فقدان رہا۔ اقتدار کو اپنی ہی کچن میں رکھنے کی ہوس نے ملکی معیشت کیلئے مسائل کو جنم دیا۔ کئی سو منصوبے فیصلے کے منتظر ہیں، جن کی قیمت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور حکومت ابھی بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی۔

جواب دیں

Back to top button