Columnمحمد مبشر انوار

ہم بھی کیا لوگ ہیں!!!

تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)

درحقیقت کسی بھی دوسرے ملک میں قیام پذیر تارک وطن کو اپنے ملک کا سفیر کہا جاتا ہے کہ وہ انفرادی حیثیت میں فقط اپنی ذات کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ بحیثیت مجموعی وہ اپنی پوری قوم اور وطن کی نمائندگی کرتا ہے ،اس کا ہر عمل اس کی تربیت کا مظہر اور اس کی ملک و قوم کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس پس منظر میں جب کسی بھی ملک وقوم کے تارکین کی غیر اخلاقی و غیر قانونی اعمال بڑھ جاتے ہیں تو میزبان ممالک،ان کے خلاف نئے قوانین و پالیسیوں کا اجراء کرتے ہیں اور اس ضمن میں ایسی اقوام کی ساتھ خصوصی سلوک روا رکھتے ہوئے،ان کے لئے ویزا میں سختیوں سے لے کرپابندیاں تک شامل ہوتی ہیں۔صد افسوس کہ ہم پاکستانیوں کا اخلاق ،ضمیر،لین دین کے معاملات میں بدنیتی و بدیانتی،ریاستی سہولیات میں چور دروازے سے حصول،تجارتی اصولوں کے برعکس تجارت میں ڈنگ ٹپائو /دیہاڑی لگانے کے شوق نے اس قوم کو عالمی سطح پر انتہائی بدنام کررکھا ہے،لین دین کے حوالے سے ’’ اعتبار‘‘ نامی احساس کو جس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے ،اس نے نصف سے زیادہ پاکستانیوں کو ذہنی مریض بنا رکھا ہے اور عدالتوں پر بوجھ کو کہیں زیادہ کر رکھا ہے کہ بدعنوان و بدطینت ’’ ٹھگوں/فراڈیوں‘‘ نے حیلے بہانوں ہموطنوں کو ’’ اعتبار‘‘ کا چونا لگا رکھا ہے، تقریبا یہی روئیے تارکین وطن میں موجود ،ملک و قوم کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مشرق وسطی کے عرب ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کہ بطور پاکستانی ہمارا ان کے ساتھ رشتہ و تعلق انتہائی گہرا اور ایک جسم کی مانند ہے تاہم اس کے باوجود اس حقیقت سے آنکھیں چرانا بھی ممکن نہیں کہ دور حاضر میں ریاستوں کے تعلقات کی بنیاد ریاستی مفادات پر اٹھائی جاتی ہے جہاں ریاستوں کے مابین ریاستی مفادات کا ٹکرائو دکھائی دے، وہاں جذباتی تعلق کو ہمیشہ الگ رکھا جاتا ہے۔ جذباتی تعلق کی آبیاری کسی بھی صورت ریاستی مفادات کے آڑے نہیں آتی بلکہ ان کی نوعیت کلیتا مختلف ہوتی ہے اور ایسے تعلقات میں گرمجوشی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ریاستیں ،ان تعلقات کی بناء پر اپنے ریاستی مفادات پر سمجھوتہ کر لیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی بالخصوص سعودی عرب ایسی مسلم ریاست ہے کہ جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی گہرے اور تذویراتی ہیں لیکن بتدریج ان تعلقات کی نوعیت اور جہت میں واضح تفریق دکھائی دے رہی ہے اورسعودی عرب کی جواں سال قیادت، دور جدید کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتی ہے اور عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو اسی پس منظر میں استوار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم یہاں یہ تصور کرنا کہ تعلقات میں یہ رویہ یکطرفہ ہے،بالکل غلط ہے کہ تعلقات ہمیشہ ’’ باہمی نوعیت‘‘ کے ہوتے ہیں اور اگر ایک فریق میں ان تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھانی کی کوشش کرے،تو تعلقات یقینی طور پر مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں گرمجوشی کا عنصرکم ہو تے ہوتے ،تعلقات عام نو عیت کے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت عرصہ دراز سے مخدوش چلی آرہی ہے کہ یورپی قوانین کے مطابق، یورپی ممالک اپنے شہریوں کے لئے بے شمار سہولتیں فراہم کرتے ہیں لیکن اس کے عوض وہ اپنے شہریوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اور کسی بھی معاملے میں دھوکہ دہی نہ کریں،مستحقین کا حق سلب نہ کریں اور حقداروں کی حق تلفی سے گریز کریں،البتہ وہ شہری جو حقیقتا و واقعتا ان سہولتوں کے حقدار ہیں،ان تک یہ سہولتیںبلا تعطل پہنچتی رہے تا کہ ریاست اپنے فرائض سے کماحقہ عہدا برآء ہوتی رہے۔ بدقسمتی سے بیشتر تارکین وطن،ان ممالک میں حصول معاش کی خاطر ہجرت کرتے ہیں ،ان ممالک کے قوانین سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن بیشتر اوقات ایسے واقعات سامنی آتے ہیں کہ ان سہولیات کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے معدودے چند افراد ،پوری قوم کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن جاتے ہیں،اور حقداروں کے لئے بھی ان سہولتوں کی فراہمی میں مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ریاستیں ،حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے، ایسی سہولیات کہ جن کا فائدہ غیر مستحقین اٹھاتے نظر آتے ہیں، اس کو سرے سے ہی ختم کر دیتی ہیں کہ ریاست کے وسائل ایسے غیر ذمہ دار افراد کے لئے قطعی نہیں ہوتے، جو قطعا حقدار نہیں۔ ابتدائی طور پر ایسے ریاستی اقدامات کے باعث گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ریاستیں کسی نہ کسی طور پر مستحقین کے لئے سہولتیں برقرار رکھتی ہیں تاہم اس کی مستقل خلاف ورزی سے بالآخر ریاستیں ،اس قوم کے لئے امتیازی قوانین کے اجراء پر مجبور ہو جاتی ہیں، جو کسی بھی قوم کے چند غیر ذمہ داران کی وجہ سے پوری قوم پر نافذ العمل ہو جاتی ہیں۔
ہماری ان حرکتوں کے باعث، مشرق وسطیٰ کے ممالک،جہاں ہماری افرادی قوت نے صحرائوں کو گل و گلزار کیا ہے، ہمارے محنت کشوں کی محنت کی جھلک یہاںکی فلک بوس عمارتوں سے منعکس ہوتی دکھائی دیتی ہے ،مشرق وسطیٰ میں بینکنگ سیکٹر کی نشو ونما میں ہمارے ہزارہا کارکنان کی ریاضت دکھائی دیتی ہے،معیشت کو استوار کرنے میں ہماری مصنوعات ،جو اب ناپید ہو چکی ہیں،کا بخوبی کردار رہا ہے،یہاں کی تہذیب و تمدن کو جدت دینے میں، مزید نشو ونما ،میں اپنا حصہ بقدر جثہ بخوبی دکھائی دیتا ہے۔ ستر کی دہائی میں ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کے ساتھ مقامی افراد کے برادرانہ تعلقات آج بھی زبان زد عام دکھائی دیتے ہیں تاہم اب یہ حقائق قصہ پارینہ بنتے اس لئے دکھائی دے رہے ہیں کہ پرانی نسل اب اللہ کو پیاری ہو چکی ہے اور نئی نسل کے نئے تقاضے اور معیار ہیں،جس کے مطابق وہ روزمرہ زندگی میں بروئے کار آ رہی ہے۔ ہماری اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ کسی ایک شخص کی انفرادی ہوس و حرص و لالچ کے باعث ان ممالک نے ہمارے لئے ویزہ پالیسیاں ازسر نو ترتیب دے لی ہیں اور ہمیں اس اتنے بڑے نقصان کا اندازہ تک نہیں ہو رہا ،کویت نے عرصہ دراز سے ہمارے ویزے بند کررکھے ہیں،یو اے ای نے بھی ہمارے ویزے بند کر دئیے ہیں،حد تو یہ ہے کہ اب شنید ہے کہ سعودی عرب جیسا برادر عزیز ملک بھی پاکستانیوں کے ویزے بند کرنے جار ہا ہے۔یہ وہ ممالک ہیں جن کے ساتھ تعلقات پر ہمیں ہمیشہ سے ناز رہا،فخر رہا لیکن صد افسوس کہ ان ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی شاہراہ اپنائی جب کہ ہم نے تنزلی کا راستہ چنا،یہاں کے حکمرانوں نے اپنے ملک و قوم کے لئے سوچا جبکہ ہم نے صرف اپنی ذات اور اپنی تجوریوں کے متعلق سوچا،یہاں کے حکمرانوں نے اپنی نوجوان نسل کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے،اپنے اذہان کو بیرون ملک جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اپنے ملک وقوم کے لئے ان کی خدمات کو یقینی بنایا جبکہ ہم نے اپنی قوم کو جعلسازی،دونمبری ،بددیانتی و ڈنکی لگانے پر مجبور کیا،جو ملک وقوم کی خدمت کرنے کاجذبہ رکھتا نظر آیا، ’’ آقائوں ‘‘کے سامنے سر جھکانے سے انکاری نظر آیا،اسے پابند سلاسل کیا یا اس کی راہ میں روڑے اٹکانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،یہاں کے حکمرانوں نے قانون کی سربلندی میں اہم کردار ادا کیا انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا تو ہم نے من حیث القوم قانون کو طاقتوروں کی رکھیل بنا کر رکھ دیا اور انصاف کی سربازار دھجیاں بکھیری ہیں۔ گزشتہ چند دن حرم مدینہ میں گزرے اور ایسے ہوشربا انکشافات سامنے آئے کہ سن کر سر شرم سے جھک گیا کہ ہم جن ہستیوں کے در پر حاضری لگوانے کے لئے آتے ہیں،وہاں ان کی تعلیمات کو کس طرح فراموش کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ کیا ہوتا ہے،انتہائی شرمناک ہے۔ سنئے اور سر دھنئے کہ حرمین میں وژن 2030ء کو مد نظر سمجھیں یا جدت پسندی یا ترقی کہ یہاں زائرین کی سہولت کے لئے جدید طرز کے رہائشی ہوٹلز تعمیر کئے گئے ہیں، جہاں زائرین کو ٹھہرایا جاتا ہے،ان تھری سٹار/فور سٹار/فائیو سٹار ہوٹلز کا معیار یقینی طور پر ماضی کی رہائشوں سے مختلف ہے،جو تہذیب و آداب کا تقاضہ کرتا ہے لیکن یہاں ہوٹلز سے متعلقہ افراد کا کہنا تھا کہ پاکستانی زائرین کا رویہ انتہائی سے زیادہ ’’جاہلانہ‘‘ ہے جنہیں ان سہولیات سے استفادہ کرنے کی تمیز تک نہیں،ان نو دولتیوں کی بدتمیزی ان کے ہر ہر عمل سے واضح دکھائی دیتی ہے،جس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ دوران رہائش ہوٹل کی جانب سے فراہم کئے گئے سفید و صاف ستھرے تولیوں کے ساتھ گھی والے ہاتھ صاف کئے جاتے ہیں جبکہ دو قدم پر واش روم میسر ہے، جہاں صابن سے ہاتھ دھو ئے جا سکتے ہیں،سست الوجودی کی اس ایک مثال کے بعد باقی صفائی کی حالت آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کئی ایک ہوٹل چینز نے باقاعدہ زائرین کی شہریت دیکھنے کے بعد،پاکستانیوں کو اپنے ہوٹلز میں رہائش دینا ہی بند کردیا ہے،خود اندازہ کریں کہ ایک چھوٹا سا ہوٹل اگر پاکستانیوں کواپنے ہوٹل میں جگہ دینے کے لئے تیار نہیں تو ریاستیں کس طرح ہمیں قبول کریں گی؟؟؟ اس کے بعد تو دل سے آہ ہی نکلتی ہے اور دماغ میں یہ فقرہ گونجتا ہے کہ ’’ ہم بھی کیا لوگ ہیں!!!‘‘ جنہیں عزت راس ہی نہیں۔

جواب دیں

Back to top button