کوڑے کے ڈھیر پر سرد لاشیں

عقیل انجم اعوان
ذرا تصور کریں کہ آپ کی زندگی ختم ہو جائے اس سے پہلے کہ وہ حقیقتاً شروع ہو۔ تصور کریں کہ آپ کو پہلی بار کسی نرم گرم بستر میں نہیں بلکہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر، گندگی اور غلاظت میں ڈالا جائے۔ تصور کریں کہ آپ کو پہلا لمس کسی ماں کے محبت بھرے ہاتھوں کا نہیں بلکہ کسی جانور کے پنجے کا محسوس ہو جو اپنا اگلا شکار تلاش کر رہا ہو۔ یہی مقدر ہر سال پاکستان میں سیکڑوں شاید ہزاروں نوزائیدہ بچوں کا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ بھی کسی ایسی ہی جگہ سے گزرے ہوں جہاں ایک نیا وجود اپنی آخری سانسیں لے رہا ہو اور آپ کو خبر تک نہ ہو۔ یا شاید کسی معصوم بچی کی گرم، زندہ جسم کے بجائے ایک بے جان و سرد لاش پڑی ہو۔ کچھ خوش نصیب بچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بچیوں کے قتل جیسے دل دہلا دینے والے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے جو سماجی و اقتصادی مسائل اور ثقافتی تعصبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ صدیوں سے پدرانہ اصولوں، معاشی دبائو اور بیٹیوں کے حوالے سے منفی رویوں نے ایسے المناک واقعات کو جنم دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق2024 ء میں پاکستان بھر میں نوزائیدہ بچیوں کے قتل کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ سندھ میں ایک واقع میں ایک نوزائیدہ بچی کوڑے کے ڈھیر سے زندہ حالت میں ملی، جبکہ دیگر واقعات میں پنجاب اور بلوچستان میں بچیوں کی لاشیں ویران علاقوں یا بے نشان قبروں سے برآمد ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ مسئلہ صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ شہری خاندانوں میں بھی ایسے واقعات دیکھے گئے ہیں۔ پاکستان میں بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینا ایک عام رویہ ہے، جو زیادہ تر معاشی اور ثقافتی وجوہات سے جڑا ہوا ہے۔ بیٹوں کو خاندان کا کفیل سمجھا جاتا ہے، جبکہ بیٹیوں کو جہیز اور وراثت کے بوجھ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن کی ایک تحقیق کے مطابق، صرف2023ء میں ملک بھر میں 1210نوزائیدہ بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں، جن میں سے 80فیصد لڑکیاں تھیں۔
یہ ایک سفاکانہ عمل ہے جس پر معاشرتی بے حسی واضح نظر آتی ہے۔ دیگر تولیدی معاملات کی طرح اسقاطِ حمل پر بھی کھلے عام بات نہیں کی جاتی نہ ہی عوامی سطح پر اور نہ ہی نجی محفلوں میں۔ یہ ایک عام رواج بن چکا ہے، چاہے وہ مستند ڈاکٹروں اور نرسوں کے ذریعے ہو، جعلی حکیموں اور دائیوں کے ہاتھوں ہو یا گھریلو طریقوں سے انجام دیا جائے جو نسل در نسل چلے آ رہے ہیں۔ قانونی اور مذہبی نقطہ نظر پاکستان میں اسقاطِ حمل کے حوالے سے کوئی واضح قانون نہیں ہے۔ تاہم، زیادہ تر اسلامی فقہ کے مطابق حمل کے پہلے چار ماہ میں اگر ماں کی جسمانی یا ذہنی صحت کو خطرہ ہو تو اسقاطِ حمل کی اجازت ہے۔ لیکن چار ماہ کے بعد جب بچے کا دماغ اور اعصابی نظام مکمل طور پر بن چکا ہوتا ہے تو اسقاطِ حمل قتل کے مترادف ہوگا، سوائے کچھ مخصوص حالات کے، جیسے کہ زیادتی یا جبری تعلقات کی صورت میں۔ لڑکی ہونے کی بنا پر اسقاطِ حمل قتل ہے، صرف اس بنیاد پر کہ بچہ ناجائز ہے یا لڑکی ہے اسقاطِ حمل کرنا یا نومولود کا قتل کرنا سراسر قتل ہے۔ اس پر کوئی احتجاج نہیں ہوتا کوئی مجرم گرفتار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سوچ کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ معاشرہ اس ظلم کو روکنے میں سنجیدہ نہیں، خاص طور پر لڑکیوں کے معاملے میں۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا کوءی نئی بات نہیں۔ یہ رویہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ چین، بھارت، وسطی ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی عام ہے۔ ان ممالک میں مردوں اور عورتوں کی تعداد کا تناسب بگڑ چکا ہے، جس کی بنیادی وجہ لڑکیوں کے اسقاطِ حمل اور نوزائیدہ بچیوں کا قتل ہے۔ بچپن لڑکیوں کے ساتھ ناانصافی شروع ہو جاتی ہے۔ انہیں کم اور کم درجے کا کھانا دیا جاتا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ سندھ کے ایک دیہی علاقے میں پیش آیا جہاں ایک لڑکی نے اپنی ماں سے انڈہ مانگا، کیونکہ اس کا بھائی انڈہ کھا رہا تھا۔ ماں نے انکار کیا اور مذاق میں کہا کہ زہر پی لو۔ اس لڑکی نے واقعی زہر پی لیا اور جان دے دی۔ یہ ایک انتہائی واقعہ تھا لیکن ہزاروں گھروں میں لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے اور بہت سی لڑکیاں اس ظلم سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کا سوچتی ہیں۔ بہت سے والدین اور خاندانوں کے نزدیک لڑکیاں بوجھ سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ وہ کماتی نہیں اور شادی کے وقت جہیز دینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سسرال کا دبائو اتنا بڑھ جاتا ہے کہ مائیں خود اپنی بچیوں کے قتل کے لیے تیار ہو جاتی ہیں کیونکہ شوہر اور سسرال طلاق کی دھمکی دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بچے کی جنس کا تعین ماں نہیں بلکہ باپ کرتا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکمت عملی یا یہ سوچ اور یہ رویے ایک دن میں نہیں بدلیں گے۔ اس کے لیے کئی نسلوں تک مسلسل محنت درکار ہوگی۔
کچھ اہم اقدامات درج ذیل ہو سکتے ہیں
آ گاہی مہم: عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
طبی ماہرین کی تربیت: ڈاکٹروں، دائیوں اور دیگر طبی عملے کو تربیت دی جائے کہ وہ اسقاطِ حمل کے لیے آنے والوں کو قائل کریں کہ یہ عمل غیر انسانی ہے۔
غیر قانونی کلینکس کے خلاف کارروائی: ان کلینکس کو بند کیا جائے جو غیر قانونی اسقاطِ حمل کر رہے ہیں۔
ناجائز بچوں کے لیے مراکز کا قیام: ایسے مراکز بنائے جائیں جہاں لوگ ناپسندیدہ بچوں کو قتل کرنے کے بجائے چھوڑ سکیں۔
سماجی سوچ میں تبدیلی: معاشرے کو یہ سکھانا ہوگا کہ ہر بچہ چاہے وہ شادی شدہ جوڑے کا ہو یا ناجائز، معصوم ہوتا ہے اور اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
یہ ایک طویل سفر ہے، لیکن اگر ابھی سے اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے سالوں میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہو جائے گا۔