پاک افغان تعلقات میں بڑا بریک تھرو

1979ء میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ پاکستان نے پڑوسی اور برادر ملک کا حق ادا کرتے ہوئے لاکھوں افغان باشندوں کی میزبانی کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اُٹھائی۔ پاکستانی عوام نے ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ افغانستان اور اُس کے عوام کی ہر ممکن مدد کی۔ افغان باشندے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں تب سے آباد ہیں اور پاکستان ان کی میزبانی کی ذمے داری تاحال نبھارہا ہے۔ افغانیوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھی ہیں۔ انہیں تمام شعبوں میں بھرپور مواقع فراہم کیے گئے۔ ڈیڑھ دو سال قبل جب پاکستان خود مشکل حالات سے گزر رہا تھا۔ وسائل انتہائی محدود تھے جو اپنے عوام کے لیے ناکافی تھے جب کہ اُس پر افغان اور دیگر غیر قانونی مقیم باشندوں کا بوجھ تھا۔ ایسے میں اُس وقت کی نگراں حکومت نے غیر قانونی مقیم تارکین وطن کی پاکستان سے باعزت اُن کے وطنوں کو واپسی کا قدم اُٹھایا تھا۔ تب سے لے کر اب تک 8لاکھ سے زائد افغان عوام اُن کے ملک بھیجے جاچکے ہیں۔ افغانستان کے امن میں پاکستان کا کلیدی کردار رہا ہے۔ امریکا اور اتحادی افواج کے انخلا میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے اور افغانستان کو ہر طریقے سے سپورٹ کیا ہے۔ پاکستان افغانستان کے لیے ایک محسن کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہر مشکل وقت میں افغانستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کو تین سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس حکومت کا رویہ بھی پاکستان کے ساتھ کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں کہلایا جاسکتا۔ اس حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھا رہا ہے۔ افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ دراندازیاں ہورہی ہیں، ان مذموم کارروائیوںکو ہماری سیکیورٹی فورسز انتہائی جانفشانی سے ناکام بناتی ہیں۔ پاکستان اس معاملے کو کافی عرصے سے افغانستان کے ساتھ اُٹھاتا چلا آرہا ہے، لیکن اُس کی جانب سے کبھی بھی سنجیدگی ظاہر نہیں کی گئی اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کا سلسلہ نہ تھم سکا اور نہ ہی دراندازیاں بند ہوئیں۔ اب اس حوالے سے بڑا بریک تھرو سامنے آیا ہے، طالبان حکومت نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ افغانستان میں نمائندہ خصوصی محمد صادق کا دورہ کابل رنگ لے آیا۔ پاک افغان مشترکہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) کا اجلاس جلد بلانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک سال کی کشیدگی کے بعد تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے اہم بریک تھرو
ہوا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک نے ادارہ جاتی روابط کا مفصل پلان تیار کرلیا جب کہ افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے معاملے پر لچک دکھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ذرائع کے مطابق جے سی سی کا اجلاس 15اپریل سے پہلے کابل میں ہوگا جس میں نمائندہ خصوصی محمد صادق سول و عسکری حکام کے ہمراہ شرکت کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت و معاشی تعاون کے فروغ کی حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرلیا گیا پاکستان اور افغانستان ترجیحی تجارت کے معاہدے پر متفق ہوگئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک افغان وزرائے تجارت کی مشاورت عید سے پہلے ہوگی۔ عید کے بعد افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ افغان حکام کے سامنے رکھا اور پہلی بار افغان طالبان میں ٹی ٹی پی پر کچھ لچک نظر آئی ہے جبکہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔ دوسری طرف وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے تحفظات دور کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق وزیر خارجہ کے زیر صدارت پاک افغان تعلقات پر اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران ترجمان نمائندہ خصوصی برائے افغانستان صادق خان نے دورہ افغانستان کے بارے بریفنگ دی، ترجمان نے افغان حکام کے ساتھ اہم مصروفیات اور ملاقاتوں پر آگاہ کیا۔ اسحاق ڈار نے اجلاس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت پر زور دیا، اسحاق ڈار نے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ مزید برآں وزیر اعظم کے مشیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر اے پی سی بلائی جائے گی، بھارت افغانستان کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے استعمال کررہا ہے، جس پر پاکستان کو گہری تشویش ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ حالیہ حملے میں ملوث ایک حملہ آور افغان شہری تھا، طورخم بارڈر کو وقتی طور پر کھولا گیا ہے تاہم افغان پناہ گزینوں کی واپسی ناگزیر ہے۔ یہ اچھی پیش رفت ہے، اس پر وزارت خارجہ کے کردار کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ وزیراعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل ملک کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ خدا کرے کہ افغانستان یہ یقینی بنائے کہ اُس کی سرزمین کبھی بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ امن و امان وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ اسی صورت میں ملک و قوم ترقی کی جانب تیزی کے ساتھ پیش رفت کرسکتے ہیں۔
خشک سالی کا الرٹ جاری
پاکستان کے تمام ہی صوبوں میں آبی قلت کا اکثر سامنا رہتا ہے۔ کبھی کبھار اتنی زیادہ بارشیں ہوجاتی ہیں کہ وہ سیلابی صورت حال کا باعث بن جاتی ہیں۔ ان کے باعث بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ 2022ء کے سیلاب کی مثال دی جاسکتی ہے، جس سے سندھ بہت متاثر ہوا تھا اور دو ہزار کے قریب اموات ہوئی تھیں جب کہ بے شمار مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے تھے۔ ہزاروں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں برباد ہوگئی تھیں۔ اتنا نقصان ہوا تھا، جس کی تلافی میں کئی عشرے لگیں گے۔ ملک میں کچھ سال ایسے بھی آتے ہیں جو خشک سالی کے کہلاتے ہیں، ان میں بارشیں نہیں ہوتیں اور اس دوران آبی بحران شدّت اختیار کرجاتا ہے۔ خشک سالی کے باعث ناصرف فصلیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ عوام کو بھی پانی کی تلاش میں دربدر بھٹکنا پڑتا ہے، بڑی تعداد میں شہری پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ ویسے تو عام طور پر بھی یہی حالات ہوتے ہیں، لیکن خشک سالی میں صورت حال مزید سنگین ہوجاتی ہے۔ سارے دریا مختلف مقامات پر خشک ہیں۔ ڈیمز میں پانی کا ذخیرہ ختم ہونے کو ہے۔ اگلے وقتوں میں صورت حال سنگین شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس صورت حال میں آبی ذخائر بڑھانے کی ضرورت تھی، لیکن اس جانب سنجیدگی سے کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ اس بار بھی ملک میں خشک سالی کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔محکمۂ موسمیات نے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں شدید خشک سالی کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ محکمہ موسمیات نے خشک سالی کا الرٹ جاری کردیا، سندھ، جنوبی بلوچستان اور پنجاب کے مشرقی میدانی علاقوں میں خشک سالی کی صورت حال کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ستمبر سے مارچ تک مجموعی طور پر 40فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں، سندھ میں 62فیصد، بلوچستان میں 52فیصد اور پنجاب میں 38فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق تربیلا اور منگلاڈیم سمیت مختلف دریائوں میں پانی کی سطح انتہائی نچلے درجے پر ہے، مارچ کے دوران مختلف مقامات پر درجہ حرارت اوسط سطح سے 2سے 3ڈگری زائد رہا۔ محکمہ موسمیات نے بتایا کہ ملک کے کچھ جنوبی علاقوں میں 200دن سے بارش نہیں ہوئی۔ دوسری طرف پنجاب کے باقی دریائوں کی طرح دریائے جہلم بھی خشک سالی سے بُری طرح متاثر ہے۔ دریائے جہلم بھی ریت کے میدان میں تبدیل ہوگیا ہے جب کہ منگلاڈیم سے سستی بجلی کی سپلائی بھی بند ہوچکی ہے۔ یہ امر سنگین حالات کی غمازی کرتا ہے۔ کاش آبی ذخائر زیادہ تعداد میں ہوتے تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔ چھوٹے ہوں یا بڑے، زیادہ سے زیادہ ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے بنائے جائیں اور ان پر جلد از جلد کام شروع کرکے مکمل کروایا جائے۔ اس حوالے سے مزید تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں ہے۔
خشک سالی الرٹ، حکومتی غفلت
سی ایم رضوان
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر بڑی سے بڑی آفت کے تدارک اور اس سے تحفظ کے لئے ہماری حکومتوں نے کبھی بھی کچھ اچھا نہیں کیا۔ سوائے روایتی اور کمینے پن سے اپنے اقتدار کے تحفظ کے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کو متعدد سنگین ترین آفتوں نے اس طرح سے گھیر رکھا ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ اس معاملے میں ماضی اور حال کے تمام حکمران اور صاحبان اختیار برابر کے مجرم اور گناہ گار ہیں۔ کسی ایک کو نہ تو الزام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان سنگین اور ملک کی زندگی تک کو خطرات سے دوچار کر دینے والے مسائل میں سے ایک دنیا بھر میں خشک سالی کا شدت اختیار کرتے ہوئے زندگیوں کا ایسا سست رو خاموش قاتل بن جانا ہے جس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس ضمن میں گزشتہ روز پاکستان کے محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا ہے کہ یکم ستمبر 2024ء سے 21مارچ 2025ء تک معمول سے 40فیصد کم بارشیں ہوئیں، سندھ میں معمول سے 62فیصد اور بلوچستان میں معمول سے 52فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ پنجاب میں معمول سے 38 فیصد کم اور خیبر پختونخوا میں معمول سے 35فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ آزاد کشمیر میں معمول سے 29فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ بارشوں سے وسطی، بالائی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال بہتر ہوئی، سندھ، بلوچستان کے جنوبی حصوں میں خشک سالی اب بھی برقرار ہے، پنجاب کے مشرقی میدانی علاقوں میں بھی خشک سالی برقرار ہے نیز تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی شدید قلت ہے۔ رواں سال مارچ میں جنوبی علاقوں میں اوسط درجہ حرارت معمول سے 2۔3ڈگری زیادہ ہے، کچھ جنوبی علاقوں میں مسلسل خشک دنوں کی تعداد 200سے بھی تجاوز کر چکی ہے، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک زرعی اور دریاں اور سمندر کے حامل ملک ہونے کے ناطے چاہئے تو یہ تھا کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت خشک سالی سے قدرے محفوظ ہوتے یا کم نقصان اٹھانے والے ممالک میں شمار ہوتے مگر ہماری غفلت اعمال نے ایسا بھی نہیں ہونے دیا۔ حالانکہ ارضی بنجر پن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیا نے آج سے ایک سال قبل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری کنونشن کے ریاستی فریقین کی 16ویں کانفرنس میں کہہ دی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا کو خشک سالی سے تحفظ دینے کے لئے ایک نیا معاہدہ طے پانے کی توقع بھی تھی۔ یہ معاہدہ اس مقصد کے لئے متاثرہ علاقوں میں محض امدادی سرگرمیوں کے بجائے خشک سالی سے بچنے کے لئے پیشگی اقدامات کی تیاری میں معاون ہوتا۔ اس کے علاوہ، کانفرنس کے شرکا ارضی بنجر پن کے باعث ہونے والے زمینی ضیاع کا سلسلہ روکنے اور ارضی بحالی کے بہترین طریقہ ہائے کار پر بات چیت بھی کی گئی۔ اس تناظر میں خشک سالی کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے کہا گیا کہ نقل مکانی اور ہجرت روکنے کے لئے پانی کی دستیابی اہم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ گو کہ خشک سالی قدرے فطری امر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اور ناپائیدار ارضی انتظام کے باعث حالیہ دہائیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 2000ء کی دہائی کے بعد دنیا میں خشک سالی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے زراعت، آبی تحفظ اور 1.8ارب لوگوں کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غریب ترین ممالک اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ خشک سالی محدود ہوتے وسائل بشمول پانی پر جنگوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ لوگ مزید پیداواری مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں۔
عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے معروف براڈ کاسٹر اور ماہر قانون محمد زاہد بھٹہ کے مطابق گزشتہ چار سال میں 30 سے زیادہ ممالک نے اپنے ہاں خشک سالی کے باعث ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ ان میں انڈیا اور چین سے لے کر امریکہ، کینیڈا اور سپین جیسے بلند آمدنی والے ممالک اور یوروگوئے، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ملک بھی شامل ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث یورپ کے دریائے رائن میں اناج کی نقل و حمل متاثر ہوئی اور وسطی امریکہ کی نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث بین الاقوامی تجارت کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے ملک برازیل میں پن بجلی کی مقدار میں کمی دیکھنے کو ملی جو اپنی ضرورت کی 60فیصد سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے نیویارک سٹی میں واقع ایک اربن پارک میں گزشتہ سال درختوں کی آگ بجھانے کے لئے فائر فائٹر طلب کرنا پڑے۔ سرما کے مہینے میں شہر کئی ہفتے تک بارش سے محروم رہا۔ حتیٰ کہ اب ایسی جگہوں پر بھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا گویا کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی یا تقریباً سات ارب لوگ خشک سالی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔
ارضی بنجر پن اور پسماندگی
خشک سالی کم ہی کسی ایک جگہ اور وقت سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کا سبب محض بارشوں کی کمی نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے پیچیدہ عوامل مشترکہ طور پر بھی اس کا سبب ہوتے ہیں جو عام طور پر موسمیاتی تبدیلی یا ناقص ارضی انتظام سے جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی پہاڑی علاقے میں برف ختم ہو جائے تو وہاں کی زمین فوری طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یہ زمین موسمی شدت کے واقعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہاں خشک سالی اور سیلاب آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جب یہ آفات آتی ہیں تو ان کے نتیجے میں کئی طرح کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں، گرمی کی لہریں اور سیلاب انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس سے لوگوں کی زندگی اور روزگار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کی طویل مدتی انسانی، سماجی اور معاشی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسی طرح ایک کے بعد دوسری خشک سالی کے نتیجے میں آبادیوں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ارضی بنجرپن اور پسماندگی کا سلسلہ تقویت پکڑتا رہتا ہے۔
دنیا میں تقریباً 70فیصد دستیاب تازہ پانی ایسے لوگوں کے زیر استعمال ہوتا ہے جن کی زندگی کا دارومدار زمین پر ہے۔ ان میں بڑی تعداد کم آمدنی والے ممالک کے کسانوں کی ہے جنہیں بہت محدود تعداد میں متبادل روزگار میسر ہوتے ہیں۔ ان میں 2.5ارب لوگ نوجوان ہیں۔ پانی کے بغیر ان کے پاس نہ تو خوراک ہوتی ہے اور نہ ہی وہ زمین کی بنیاد پر روزگار تک رسائی پا سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نقل مکانی، عدم استحکام اور تنازعات کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خشک سالی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے یہ ترقی اور انسانی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے جس پر تمام شعبوں میں اور ہر انتظامی سطح پر فی الفور قابو پانا ہو گا۔ انسان کی لائی ہوئی موسمیاتی تبدیلی، ناقص ارضی انتظام اور مسئلے سے نمٹنے کے لئے امدادی طریقہ کار پر زور دیئے جانے کے باعث خشک سالی مزید سخت اور تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر نچلی سطح پر پانی کی فراہمی میں کمی سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید منصوبہ بندی اور مطابقت پذیری درکار ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ زمبابوے میں نوجوانوں کے زیرقیادت نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے ملک میں ایک ارب درخت لگا کر زمین کو دوبارہ کارآمد بنانے کی قابل تقلید کوشش کی ہے جبکہ غرب الہند کے ملک ہیٹی میں کسان یہ یقینی بنانے کے لئے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں کہ ان درختوں کو کاٹا نہ جا سکے جن پر یہ انحصار کرتی ہیں۔ اسی مالی میں ایک نوجوان کاروباری خاتون مورنگا درخت کی پیداوار کو فروغ دے کر لوگوں کے لئے روزگار پیدا کر رہی ہے اور علاقی میں معاشی استحکام لانے کے لئے کوشاں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اقدامات سے انسانی مصائب کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ محض امداد اور بحالی کی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سستے ہوتے ہیں۔ یو این او کے تحت گزشتہ سال منعقدہ ’’ کاپ 16‘‘ میں ممالک نے اس بات پر اتفاق رائے پیدا کیا تھا کہ بدترین صورت اختیار کرتی خشک سالی پر اجتماعی طور سے کیسے قابو پانے کے لئے اپنی اپنی سطح پر پائیدار ارضی انتظام فروغ دیا جائے گا۔ کانفرنس کے پہلے روز اس مسئلے پر دو تحقیقی کام بھی پیش کیے گئے۔ ان میں ایک ’ خشک سالی کا عالمی جغرافیہ‘ تھا جس میں یہ دکھایا گیا کہ خشک سالی سے کون سے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور وہ توانائی، زراعت، دریائی نقل و حمل اور بین الاقوامی تجارت جیسے شعبوں سے کیسے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان سے عدم مساوات فروغ پاتی ہے، مسلح تنازعات جنم لیتے ہیں اور صحت عامہ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس میں خشک سالی کے مقابل مضبوطی پیدا کرنے کے بین الاقوامی اتحاد ( آئی ڈی آر اے) کے زیراہتمام مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایک معلوماتی پلیٹ فارم کی رونمائی بھی ہوئی۔ یاد رہے کہ ’ آئی ڈی آر اے‘ اس کنونشن کے زیراہتمام 70سے زیادہ ممالک اور تنظیموں کا اتحاد ہے جو خشک سالی کے خلاف عملی اقدامات کے لئے پرعزم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں خشک سالی اور ناقص ارضی انتظام سے متاثرہ زمین کو 2030ء تک بحال کرنے کے لئے 2.6ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔ ’’ کاپ 16‘‘ میں خشک سالی سے تحفظ کے لئے عالمی شراکت’ کو 2.15 ارب ڈالر کی فراہمی کے ابتدائی وعدے سامنے آئے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت ماحولیات، پانی و زراعت کے نائب وزیر اسامہ فقیہہ نے کہا تھا کہ ان مالی وسائل سے خشک سالی کا موثر طور سے مقابلہ کرنے اور متاثرہ علاقوں میں محض امدادی کارروائیوں سے بڑھ کر پیشگی تیاری کے اقدامات میں مدد ملے گی۔ زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دینے کے لئے دنیا بھر سے مزید وسائل کے حصول کی کوششیں بھی کی جائیں گی لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں دیگر انتظامی و سیاسی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم خشک سالی سے بچنے کے لئے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
سی ایم رضوان