
سی ایم رضوان
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر بڑی سے بڑی آفت کے تدارک اور اس سے تحفظ کے لئے ہماری حکومتوں نے کبھی بھی کچھ اچھا نہیں کیا۔ سوائے روایتی اور کمینے پن سے اپنے اقتدار کے تحفظ کے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کو متعدد سنگین ترین آفتوں نے اس طرح سے گھیر رکھا ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ اس معاملے میں ماضی اور حال کے تمام حکمران اور صاحبان اختیار برابر کے مجرم اور گناہ گار ہیں۔ کسی ایک کو نہ تو الزام دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان سنگین اور ملک کی زندگی تک کو خطرات سے دوچار کر دینے والے مسائل میں سے ایک دنیا بھر میں خشک سالی کا شدت اختیار کرتے ہوئے زندگیوں کا ایسا سست رو خاموش قاتل بن جانا ہے جس سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس ضمن میں گزشتہ روز پاکستان کے محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا ہے کہ یکم ستمبر 2024ء سے 21مارچ 2025ء تک معمول سے 40فیصد کم بارشیں ہوئیں، سندھ میں معمول سے 62فیصد اور بلوچستان میں معمول سے 52فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ پنجاب میں معمول سے 38 فیصد کم اور خیبر پختونخوا میں معمول سے 35فیصد کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں جبکہ آزاد کشمیر میں معمول سے 29فیصد کم بارشیں ہوئیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق حالیہ بارشوں سے وسطی، بالائی علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال بہتر ہوئی، سندھ، بلوچستان کے جنوبی حصوں میں خشک سالی اب بھی برقرار ہے، پنجاب کے مشرقی میدانی علاقوں میں بھی خشک سالی برقرار ہے نیز تربیلا اور منگلا ڈیموں میں پانی کی شدید قلت ہے۔ رواں سال مارچ میں جنوبی علاقوں میں اوسط درجہ حرارت معمول سے 2۔3ڈگری زیادہ ہے، کچھ جنوبی علاقوں میں مسلسل خشک دنوں کی تعداد 200سے بھی تجاوز کر چکی ہے، خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ پاکستان کے ایک زرعی اور دریاں اور سمندر کے حامل ملک ہونے کے ناطے چاہئے تو یہ تھا کہ ہم دنیا کے دیگر ممالک کی بہ نسبت خشک سالی سے قدرے محفوظ ہوتے یا کم نقصان اٹھانے والے ممالک میں شمار ہوتے مگر ہماری غفلت اعمال نے ایسا بھی نہیں ہونے دیا۔ حالانکہ ارضی بنجر پن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیا نے آج سے ایک سال قبل سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں جاری کنونشن کے ریاستی فریقین کی 16ویں کانفرنس میں کہہ دی تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا کو خشک سالی سے تحفظ دینے کے لئے ایک نیا معاہدہ طے پانے کی توقع بھی تھی۔ یہ معاہدہ اس مقصد کے لئے متاثرہ علاقوں میں محض امدادی سرگرمیوں کے بجائے خشک سالی سے بچنے کے لئے پیشگی اقدامات کی تیاری میں معاون ہوتا۔ اس کے علاوہ، کانفرنس کے شرکا ارضی بنجر پن کے باعث ہونے والے زمینی ضیاع کا سلسلہ روکنے اور ارضی بحالی کے بہترین طریقہ ہائے کار پر بات چیت بھی کی گئی۔ اس تناظر میں خشک سالی کے بارے میں آگاہی دیتے ہوئے کہا گیا کہ نقل مکانی اور ہجرت روکنے کے لئے پانی کی دستیابی اہم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ گو کہ خشک سالی قدرے فطری امر ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اور ناپائیدار ارضی انتظام کے باعث حالیہ دہائیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 2000ء کی دہائی کے بعد دنیا میں خشک سالی کے واقعات کی رفتار اور شدت میں تقریباً 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سے زراعت، آبی تحفظ اور 1.8ارب لوگوں کے روزگار کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غریب ترین ممالک اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ خشک سالی محدود ہوتے وسائل بشمول پانی پر جنگوں کا سبب بھی بن سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ لوگ مزید پیداواری مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں۔
عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے معروف براڈ کاسٹر اور ماہر قانون محمد زاہد بھٹہ کے مطابق گزشتہ چار سال میں 30 سے زیادہ ممالک نے اپنے ہاں خشک سالی کے باعث ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ ان میں انڈیا اور چین سے لے کر امریکہ، کینیڈا اور سپین جیسے بلند آمدنی والے ممالک اور یوروگوئے، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ملک بھی شامل ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث یورپ کے دریائے رائن میں اناج کی نقل و حمل متاثر ہوئی اور وسطی امریکہ کی نہر پانامہ میں پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث بین الاقوامی تجارت کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جنوبی امریکہ کے ملک برازیل میں پن بجلی کی مقدار میں کمی دیکھنے کو ملی جو اپنی ضرورت کی 60فیصد سے زیادہ بجلی پانی سے پیدا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے نیویارک سٹی میں واقع ایک اربن پارک میں گزشتہ سال درختوں کی آگ بجھانے کے لئے فائر فائٹر طلب کرنا پڑے۔ سرما کے مہینے میں شہر کئی ہفتے تک بارش سے محروم رہا۔ حتیٰ کہ اب ایسی جگہوں پر بھی خشک سالی دیکھنے کو مل رہی ہے جہاں پہلے اس کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا گیا گویا کوئی بھی ملک اس مسئلے سے محفوظ نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی یا تقریباً سات ارب لوگ خشک سالی سے کسی نہ کسی طور متاثر ہوں گے۔
ارضی بنجر پن اور پسماندگی
خشک سالی کم ہی کسی ایک جگہ اور وقت سے مخصوص ہوتی ہے اور اس کا سبب محض بارشوں کی کمی نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کے پیچیدہ عوامل مشترکہ طور پر بھی اس کا سبب ہوتے ہیں جو عام طور پر موسمیاتی تبدیلی یا ناقص ارضی انتظام سے جنم لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی پہاڑی علاقے میں برف ختم ہو جائے تو وہاں کی زمین فوری طور پر بنجر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں یہ زمین موسمی شدت کے واقعات کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہاں خشک سالی اور سیلاب آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ جب یہ آفات آتی ہیں تو ان کے نتیجے میں کئی طرح کے تباہ کن اثرات ہوتے ہیں، گرمی کی لہریں اور سیلاب انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں جس سے لوگوں کی زندگی اور روزگار کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور اس کی طویل مدتی انسانی، سماجی اور معاشی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اسی طرح ایک کے بعد دوسری خشک سالی کے نتیجے میں آبادیوں، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں ارضی بنجرپن اور پسماندگی کا سلسلہ تقویت پکڑتا رہتا ہے۔
دنیا میں تقریباً 70فیصد دستیاب تازہ پانی ایسے لوگوں کے زیر استعمال ہوتا ہے جن کی زندگی کا دارومدار زمین پر ہے۔ ان میں بڑی تعداد کم آمدنی والے ممالک کے کسانوں کی ہے جنہیں بہت محدود تعداد میں متبادل روزگار میسر ہوتے ہیں۔ ان میں 2.5ارب لوگ نوجوان ہیں۔ پانی کے بغیر ان کے پاس نہ تو خوراک ہوتی ہے اور نہ ہی وہ زمین کی بنیاد پر روزگار تک رسائی پا سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نقل مکانی، عدم استحکام اور تنازعات کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خشک سالی محض ماحولیاتی مسئلہ نہیں ہے یہ ترقی اور انسانی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے جس پر تمام شعبوں میں اور ہر انتظامی سطح پر فی الفور قابو پانا ہو گا۔ انسان کی لائی ہوئی موسمیاتی تبدیلی، ناقص ارضی انتظام اور مسئلے سے نمٹنے کے لئے امدادی طریقہ کار پر زور دیئے جانے کے باعث خشک سالی مزید سخت اور تیز رفتار ہوتی جا رہی ہے۔ عام طور پر نچلی سطح پر پانی کی فراہمی میں کمی سے پیدا ہونے والے شدید موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید منصوبہ بندی اور مطابقت پذیری درکار ہے۔ اس سلسلے میں ایک مثال یہ ہے کہ زمبابوے میں نوجوانوں کے زیرقیادت نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے ملک میں ایک ارب درخت لگا کر زمین کو دوبارہ کارآمد بنانے کی قابل تقلید کوشش کی ہے جبکہ غرب الہند کے ملک ہیٹی میں کسان یہ یقینی بنانے کے لئے درختوں پر شہد کی مکھیاں پال رہے ہیں کہ ان درختوں کو کاٹا نہ جا سکے جن پر یہ انحصار کرتی ہیں۔ اسی مالی میں ایک نوجوان کاروباری خاتون مورنگا درخت کی پیداوار کو فروغ دے کر لوگوں کے لئے روزگار پیدا کر رہی ہے اور علاقی میں معاشی استحکام لانے کے لئے کوشاں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اقدامات سے انسانی مصائب کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ محض امداد اور بحالی کی سرگرمیوں سے کہیں زیادہ سستے ہوتے ہیں۔ یو این او کے تحت گزشتہ سال منعقدہ ’’ کاپ 16‘‘ میں ممالک نے اس بات پر اتفاق رائے پیدا کیا تھا کہ بدترین صورت اختیار کرتی خشک سالی پر اجتماعی طور سے کیسے قابو پانے کے لئے اپنی اپنی سطح پر پائیدار ارضی انتظام فروغ دیا جائے گا۔ کانفرنس کے پہلے روز اس مسئلے پر دو تحقیقی کام بھی پیش کیے گئے۔ ان میں ایک ’ خشک سالی کا عالمی جغرافیہ‘ تھا جس میں یہ دکھایا گیا کہ خشک سالی سے کون سے خطرات لاحق ہوتے ہیں اور وہ توانائی، زراعت، دریائی نقل و حمل اور بین الاقوامی تجارت جیسے شعبوں سے کیسے منسلک ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ ان سے عدم مساوات فروغ پاتی ہے، مسلح تنازعات جنم لیتے ہیں اور صحت عامہ خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کانفرنس میں خشک سالی کے مقابل مضبوطی پیدا کرنے کے بین الاقوامی اتحاد ( آئی ڈی آر اے) کے زیراہتمام مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایک معلوماتی پلیٹ فارم کی رونمائی بھی ہوئی۔ یاد رہے کہ ’ آئی ڈی آر اے‘ اس کنونشن کے زیراہتمام 70سے زیادہ ممالک اور تنظیموں کا اتحاد ہے جو خشک سالی کے خلاف عملی اقدامات کے لئے پرعزم ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں خشک سالی اور ناقص ارضی انتظام سے متاثرہ زمین کو 2030ء تک بحال کرنے کے لئے 2.6ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے۔ ’’ کاپ 16‘‘ میں خشک سالی سے تحفظ کے لئے عالمی شراکت’ کو 2.15 ارب ڈالر کی فراہمی کے ابتدائی وعدے سامنے آئے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارت ماحولیات، پانی و زراعت کے نائب وزیر اسامہ فقیہہ نے کہا تھا کہ ان مالی وسائل سے خشک سالی کا موثر طور سے مقابلہ کرنے اور متاثرہ علاقوں میں محض امدادی کارروائیوں سے بڑھ کر پیشگی تیاری کے اقدامات میں مدد ملے گی۔ زندگیوں اور روزگار کو تحفظ دینے کے لئے دنیا بھر سے مزید وسائل کے حصول کی کوششیں بھی کی جائیں گی لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں دیگر انتظامی و سیاسی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم خشک سالی سے بچنے کے لئے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔