ColumnFayyaz Malik

مریم نواز صاحبہ، ہسپتالوں کے ہنگامی دورے جاری رکھیں

تحریر : فیاض ملک

میو ہسپتال کا شمار پاکستان کے قدیم ترین اور بڑے ہسپتالوں میں سے ایک ہے، یہ ہسپتال شروع میں ایک چھوٹے طبی مرکز کے طور پر قائم ہوا لیکن وقت کے ساتھ یہ جنوبی ایشیا کے بڑے اور اہم ترین سرکاری ہسپتالوں میں شامل ہو گیا۔ یہ پاکستان کی مشہور اور جنوبی ایشیا کی دوسری قدیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے جہاں پر طلبہ میڈیکل کے مختلف شعبہ جات میں تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس ہسپتال کی تاریخ کی اگر بات کی جائے تو اسکی عمارت 1870ء میں مکمل ہوئی اور1871ء سے اس میں کام کا آغاز ہوا تھا، ہسپتال کو اس وقت کے برطانوی ہندوستانی وائسرائے رچرڈ برک مایو کے نام سے موسوم کیا گیا جو لارڈ مایو کے نام سے مشہور تھا، اس عمارت کی طرز تعمیر اطالوی ہے، اس کا نقشہ اس وقت پودن نے بنایا اور رائے بہادر کنہیا لال نے تعمیر کروایا جو کہ اس وقت کے مشہور ماہرین تعمیرات میں سے ایک تھے، تاہم تعمیراتی اثرات وسطی دور میں تعمیر شدہ مالدیپ کے ہسپتالوں سے ملتے ہیں۔ تاہم 1960ء اور 1980ء کے دوران کیے جانیوالے ردو بدل کی نقشہ کشی عبد الرحمن حئی المعروف اے آر حئی نے کی تھی جوکہ پاکستان میں ادارہ جاتی ماہرین تعمیرات کے رہبر تھے، تاریخی اہمیت کے حامل اس ہسپتال کی عمارد درج ذیل ترتیب پر تعمیر کی گئی تھی1871ء میں میو ہسپتال میں مرکزی عمارت تعمیر کی گئی جو اب شعبہ اندرونی مریضاں ہے، اسی 1891ء میں اے وی ایچ ( نجی) کی الگ عمارات،1952ء میں شعبہ بیرونی مریضاں،1974ء میں امراض بچکانہ کا شعبہ،1982ء میں ادارہ امراض چشم،1984ء میں حادثات، ہنگامی صورت حال اور بچکانہ امراض کی جراحی کیلئے الگ عمارات جبکہ 2001ء میں طبیعاتی ادویات اور تعمیر نو کا شعبہ بنایا گیا تھا جبکہ اب بھی ہسپتال میں مزید تعمیر تیزی سے جاری ہے اور مریضوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے نئی عمارتیں کی تعمیر جاری ہے۔ بلاشبہ اب بھی میو ہسپتال ہر روز ہزاروں مریض علاج کیلئے آتے ہیں جہاں ان کو جدید ترین طبی سہولیات، سرجری، دل، گردے، جگر، نیورولوجی اور دیگر کئی شعبوں میں موجود ماہرین اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں، قارئین کرام:اب صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ایشیا کا سب سے بڑا میو ہسپتال مشکلات سے دو چار ہو گیا ہے ، ہسپتال میں واحد ایم آر آئی اور سٹی سکین مشینیں خراب ہونے کی وجہ سے مریضوں کا علاج معالجہ شدید متاثر ہونے لگا .ان ڈور اور آوٹ ڈور کے مریضوں کے ٹیسٹ بھی رک گئے، ہسپتال میں آنیوالے مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں ریفر کیا جا رہا تھا .ادویات کی فراہمی بھی تعطل کا شکار تھی ، ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کو ادویات بازار سے خریدنے پر مجبورہیں شہری بلبلا رہے تھے جبکہ ہسپتال کی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ ادارے سب اچھا کا راگ الاپ رہے تھے ، میو ہسپتال کی اس بدترین صورتحال کا ادراک ہونے پر گزشتہ دنوں صوبے کی چیف ایگزیکٹو مریم نواز شریف نے میو ہسپتال کا اچانک دورہ کرتے ہوئے ایمرجنسی بلاک، ٹی بی اینڈ چیسٹ، آئی سی یو کارڈیالوجی اور دیگر وارڈز کا جائزہ بھی لیا، جہاں انہوںنے ہسپتال میں زیر علاج مریضوں اور تیمارداروں سے علاج کے بارے میں مکمل تفصیلات دریافت کیں اور وارڈز میں مریضوں کے علاج کے عمل کا مشاہدہ کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے سندھ سے آئے میاں بیوی کی شکایت کے فوری ازالے اور گردے کے مرض میں مبتلا بچی کی ماں کی اپیل پر فوری ٹرانسپلانٹ کیلئے اقدامات کی ہدایت بھی کی، اس موقع پر ایک معصوم بچی نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ اس کی ماں بیمار ہے اور وہ رات بھر دوائیوں کیلئے بھاگ بھاگ کر تھک گئی ہوں جس پر وزیراعلیٰ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا، مریضوں کی جانب سے سرنج اور برنولا وغیرہ تک نہ ملنے کے بارے میں بتایا گیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ہسپتال کے مختلف وارڈز میں صفائی کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا، کارڈیالوجی وارڈ میں کیڑے مکوڑے پائے جانے کی شکایت پر مریم نواز مزید برہم ہو گئیں۔ اس موقع پر اپنے درمیان مریم نواز شریف کو دیکھ کر مریضوں اور ان کے لواحقین نے ان کے ساتھ گفتگو میں ہسپتال کی انتظامیہ کی بے حسی اور لاپروائی پر شکایات کے انبار لگاتے ہوئے بتایا کہ پروفیسرز تو مہان ہیں جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر بھی 11بجے غائب ہو جاتے ہیں، ہسپتال جونیئر ڈاکٹرز کے سپرد کر کے سینئر ڈاکٹر چلے جاتے ہیں یا اپنے آفس میں بیٹھے رہتے ہیں، کسی بھی مریض کو چیک نہیں کرتے، جس پر مریم نواز نے ہسپتال کے سٹور میں ادویات، سرنج،برنولا اور دیگر اشیاء کی فراہمی چیک کرائی، وزیر اعلیٰ نے ہسپتال کے انتظامی امور میں بدنظمی پر انتظامیہ کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر مخلوق رل رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کیا اللہ کو جواب نہیں دینا، میوہسپتال کے حالات بہت برے ہیں، لوگ ہسپتال میں علاج کی توقع اور امید لیکر آتے ہیں، کس وارڈ میں کیا ہو رہا ہے ہسپتال انتظامیہ کو علم ہی نہیں، جو عوام کے ساتھ ہورہا ہے ذمہ داروں کے اپنوں کے ساتھ ہو تو پتہ چلے، کسی کی بد انتظامی کی سزا عوام کو کیوں ملے، انہوں نے ایم ایس میو ہسپتال ڈاکٹر فیصل مسعود اور سی ای او ڈاکٹر احسن کو فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم دیدیا جس کے بعد ان کی جگہ ڈاکٹر احتشام الحق کو ایم ایس میو ہسپتال لگا دیا گیا جبکہ پروفیسر ڈاکٹر ہارون حامد کو سی ای او میو ہسپتال مقرر کر دیا گیا، بعدازاں وزیراعلیٰ نے دورہ کے دوران ہی میو ہسپتال میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا اور میو ہسپتال کے امور کے بارے میں تفصیلی انکوائری اور تمام ذمہ داروں سے جواب طلبی کی۔ وزیراعلیٰ نے ادویات کے واجباتِ کی ادائیگی کیلئے فوری اقدامات کا حکم دیا اور میو ہسپتال میں ادویات کی100فیصد فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی، انہوں نے سیکرٹری ہیلتھ کو ہسپتال میں بدانتظامی کے ذمہ داروں کا تعین کرکے کارروائی کی ہدایت اور میو ہسپتال کی تعمیر و مرمت کا جامع پلان بھی طلب کر لیا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں 100فیصد بہتری لانا ہدف ہے، بلاشبہ 1871ء سے قائم میو ہسپتال کی عمارت اور اس میں موجود طبی مشینری، طبی آلات اور دیگر انتظامات میں جدت لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ موجودہ حکومت میو ہسپتال سمیت پنجاب کے تمام ہسپتالوں کی ری ویپمنگ کیلئے کامیابی سے کوشاں ہے۔ حکومت اپنے اختیارات کے مطابق فوری امداد ضرور فراہم کر رہی ہے لیکن صحت کا نظام سابقہ حکومتوں کے نظر انداز کرنے پر پوری طرح کام نہیں کر رہا۔ تاہم محدود وسائل کے باوجود وزیر اعلیٰ اور وزارت صحت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حالات بہتر کیے جائیں، بہر حال وزیر اعلیٰ کے دورہ میو ہسپتال کے مثبت نتائج سامنے آئے ہے، سرکاری ہسپتالوں کچھ بہتری لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے علاوہ مریضوں کو ملنے والی مفت ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے دورہ میو ہسپتال کے دوران وہاں پر موجود مسائل اور انتظامی امور میں بدنظمی اس امر کی نشاندہی ہے کہ اب حکومت کو سب سے پہلے صحت کے شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو علاج کی سہولت میسر ہوسکے، کئی سرکاری ہسپتالوں کی عمارتیں بھی بوسیدہ ہوچکی ہیں جیسے گنگا رام، میو ہسپتال بہت پرانے ہسپتال ہیں یہاں کافی حصے ایسے ہیں جنہیں مسمار کر کے نئی تعمیرات کی جائیں، چند روز قبل ہسپتال میں لفٹ گرنے سے 11 نرسیں زخمی ہوگئی تھیں جن میں سے3کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ حادثے کا شکار ہونیوالی لفٹ گزشتہ برس ہی لگوائی گئی تھی اور اس میں فنی خرابی کی شکایات بھی تھیں، یہ میو ہسپتال میں (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
چند سالوں میں لفٹس گرنے کا تیسرا واقعہ ہے۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایم ایس پروفیسر فیصل مسعود کو فوری تحقیقات کا حکم دیاتھا، کیا تحقیقات ہوئی، کون قصور وار ثابت ہوا، نہیں معلوم، یوں یہ بات بھی آئی گئی ہو گئی۔ اس کے علاوہ جدید آلات پر مبنی آپریشن تھیٹرز کی ہر ہسپتال میں ضرورت ہے، ہسپتالوں میں مناسب صفائی نہ ہونا انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ امر ہے، پسماندہ اور دور دراز علاقوں کے عوام کو بھی جدید ترین طبی سہولتوں کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت صوبے کے تمام بڑے اور چھوٹے سرکاری ہسپتالوں میں بہتری کیلئے وزیر اعلیٰ کے ایسے ہی ہنگامی دوروں کی اشد ضرورت ہے۔
فیاض ملک

جواب دیں

Back to top button