مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کا مطالبہ
![](https://i0.wp.com/jehanpakistan.pk/wp-content/uploads/2022/07/Tajamul-Hussain-Hashmi-1.jpg?fit=416%2C272&ssl=1)
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
قادیانیوں کے حوالے سے کیا گیا فیصلہ یاد گار اور تاریخی ہے، پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے آئین میں ترمیم کر کے مرزا غلام احمد قادیانی کے تمام ماننے والوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ نے بھی ہندوستان کی حکومت سے کیا تھا۔ مفکر علامہ اقبالؒ وقت کے ولی ہیں۔ ان کی دور اندیشی قابل احترام ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے ختم نبوت کی خدمات کیلئے خود کو پیش کیا سچے عاشق رسولؐ ہیں۔
ختم نبوت اکیڈمی برطانیہ کے سربراہ مولانا سہیل باوا صاحب اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں ’’ اگر قادیانی اپنی الگ شناخت قائم کر لیتے ہیں تو مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان تنازع ختم ہو سکتا ہے‘‘۔ پاکستانی آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے لیکن قادیانی جماعت اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ انٹر نیشنل فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے کی ناپاک کوشش کر رہی کہ ان کے خلاف کئے گئے فیصلے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اسے ظلم قرار دیا جا رہا ہے۔ مولانا سہیل باوا نے انتہائی جمہوری انداز میں اس غلط پرویپگنڈے کا جواب دیا ہے۔ ’’ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور اس کی اسمبلی جو عوام کے ووٹوں سے وجود میں آئی ہے۔ قومی اسمبلی کے فلور پر متفقہ قرارداد اور قرآن مجید احکامات کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ اُس وقت اسمبلی میں موجود ارکان میں سے کسی نے مخالفت نہیں کی۔ سب یک زبان تھے۔ یہ ایک جمہوری فیصلہ ہے اور ایمانی فیصلہ بھی ہے کیوں قرآن مجید میں واضح ہے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ نبوت کا سلسلہ حضورؐ کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اب اگر کوئی شخص خود کو نعوذ باللہ نبی کہتا ہے تو وہ دجال جھوٹا اور مرتد ہے۔ آنکھ سے کانا مرتد ہے۔ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں جمہوری نظام کو تسلیم کرتی ہیں تو پھر پاکستان کی جمہوری اسمبلی کے فیصلے کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ کیوں بنتی ہیں؟ ریاست پاکستان پر بے جا پابندیاں اور تنقید کیوں کی جاتی ہے ؟ یہ بات سمجھ سے بلا تر ہے‘‘۔
اسمبلی کے اس فیصلے سے قبل قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر مرتد کی ٹیم اور لاہوری جماعت کے سربراہ کی ٹیم نے قومی اسمبلی آ کر اپنا موقف تحریری اور زبانی پیش کیا۔ اس قانون پر اسمبلی میں 13دن بحث کا موقع دیا گیا۔ قادیانیوں کی طرف سے مفصل بیان ریکارڈ کرانے کے بعد قومی اسمبلی میں فیصلہ کیا گیا۔ قومی اسمبلی کے فیصلہ میں ان کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ قادیانیوں کی دونوں پارٹیاں اس وقت اسمبلی میں حاضر ہوئیں۔ دونوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی حیثیت کو تسلیم کیا۔ مزید قادیانی جماعت نے اس فیصلہ کو فیڈرل شرعی کورٹ میں چیلنج کیا، شرعی عدالت نے دلائل سننے کے بعد قادیانی آرڈیننس 1984کو برقرار رکھا۔ قومی اسمبلی اور شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد اسے دنیا کی طرف سے ظلم یا متنازعہ قرار دینا مسلمانوں کے خلاف کھلی محاذ آرائی ہے۔ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے، جو سراسر زیادتی ہے۔ 3ارب مسلم امہ اس پر احتجاج کا حق رکھتی ہے۔ قادیانیوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے اسلام کے آغوش رحمت میں آنا چاہیے اور سیدھی راہ اختیار کرنی چاہئے اور آقاؐ سے معافی مانگنی چاہئے۔ حضورؐ کی ناراضی سے ان کو ڈرنا چاہے ۔ اللّہ پاک نے تمام جہاں حضورؐ کی محبت میں بنائے ہیں۔
تم ہی خود اپنی ادائوں پہ ذرا غور کرو
ہم کچھ کہیں گے تو پھر یہ شکایت ہوگی
معصوم لوگوں کو یہ کہہ کر کہ ہم بھی مسلمان ہیں گمراہ کرنا خلاف قانون ہے۔
آئین پاکستان کے مطابق قادیانی خود کو نہ تو مسلمان کہہ سکتے اور نہ ہی شعائر اسلام ( مسجد بنانا، اذان دینا وغیرہ) کو اختیار کر سکتے ہیں۔ ان کو اپنی الگ شناخت کرنی ہوگی۔ یہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔ یہ لوگ مسلمان بچوں کو پیسے، ویزا اور شادی وغیرہ کی لالچ دیکر اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات ان کے دلوں میں اتار کر اپنے مذہب کو سچا مذہب ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں، قادیانیوں کا یہ طریقہ واردات ہے جو اسلام اور آئین پاکستان کے بالکل خلاف ہے اور یہ قادیانیوں کی طرف سے کھلا اعلان بغاوت ہے ، پاکستان کے آئین کو تسلیم نہ کرنا بہت بڑا آئینی جرم ہے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار تنظیمیں قادیانیوں کو اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتیں کہ وہ مسلمان کی علاوہ اپنی کوئی اور شناخت رکھ لیں، لہذا وہ اپنی الگ شناخت کرائیں ۔ حضورؐ آخری نبی ہیں اور ختم نبوت حضورؐ کی شان ہے۔ جو کوئی بھی خود کو نبی کہے گا وہ جھوٹا، مرتد ہے۔