ColumnQadir Khan

پاکستان کے سیاحتی مستقبل کا خواب

تحریر : قادرخان یوسف زئی
پاکستان کے قدرتی مناظرات کی رونقیں جو اپنی مثال آپ ہیں، جیسے پہاڑوں سے گزر کر دریا کے کنارے تک پھیلتے ہوئے درخت، دھوپ سے رنگت پانے والے گلابی چمن، اور جب ہلکی ہوائوں میں تتلیاں رقص کرتی ہیں، ایک بار پھر وہ منظر آنکھوں کے سامنے جاگتے ہیں، لیکن اس کا ایک بدلا ہوا رنگ ہے۔ 2021ء کے سیلاب نے صرف پاکستان کے سیاحتی علاقوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کو اپنے اثرات سے جکڑ لیا تھا۔ سیلاب نے اپنی بے رحم طاقت سے سیکڑوں سیاحتی مقامات کو تباہ کر دیا، زمین نے اس قدرتی حسن کا عوض جو طلب کیا تھا، وہ ناقابل تلافی ہے۔ پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے، جس کی قدرتی سرسبزی اور ثقافتی اہمیت اس کی پہچان ہے، لیکن یہ طوفانی سیلاب وادیاں اور میدانی علاقے اپنے ساتھ بہا لے گئے، ساتھ ہی وہ خوبصورت دیہات، آمدنی کے ذرائع، اور وہ منظر جو دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا، بھی تباہ ہو گئے۔ یہ ملک کی سیاحت کے شعبے کلئے ایک زور دار دھچکا ثابت ہوا تھا، جو کبھی ملکی معیشت کے لیے بڑا ذریعہ تھا۔ بدقسمتی سے، جن ممالک اور تنظیموں نے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے عطیات کا اعلان کیا، ان کے وعدے عملی طور پر پوری طرح نہیں پورے ہوئے۔ خیرمقدم کے جذبے کے باوجود، حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔
پاکستان میں 2021ء کے سیلاب کا اثر 2024ء تک محسوس کیا جا رہا ہے۔ وہ سیاحتی مقامات جو ایک وقت میں اپنے قدرتی حسن سے سیاحوں کو حیران کن منظر دکھایا کرتے تھے، اب تک اپنے پرانے مقام پر واپس نہیں آ سکے۔ وادیاں ابھی تک پسماندگی کی حالت میں ہیں اور پہاڑ اور جھیلیں قریباََ ویسی ہی تباہ حال نظر آتیں ہیں جیسے وہ سیلاب کے بعد ہوگئی تھیں۔ ان مشہور سیاحتی مقامات تک جانے والی سڑکیں خراب حالت میں ہیں اور اکثر خطرناک اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اور سیاحوں کی میزبانی کرنے والی تمام سہولتیں، جیسے ہوٹل، اب تک ناقابل رسائی ہیں اور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ جب کہ مقامی کمیونٹیز جو کبھی سیاحت پر انحصار کرتی تھیں، اب کی صورت حال بہت مختلف ہے۔ عالمی کمیونٹی نے بحالی کی طرف آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی سیاحت کی بحالی کے خواب بھیانک تعبیر کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔پھر بھی، لوگ اب بھی اپنی زندگیوں، گھروں، اور کمیونٹیوں کو محض عزم اور وسائل کے ساتھ بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بحالی ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے، لیکن ملک کے لوگوں کا جذبہ مر نہیں سکتا۔ جب پاکستان عالمی سیاحت کے نقشے پر واپس آنے کی کوشش کرتا ہے، تو دنیا کو اس وسیع آبادی کے جذبات کو سمجھنا ہوگا جو اس تمام مصیبت کا سامنا کر رہی ہے، صرف عالمی سطح پر زبانی اعتراف و جمع خرچ کرنا ہی کا فی نہیں عملی تعاون کی ضرورت اس سے کئی زیادہ ہے۔
پاکستان کا سیاحت کا شعبہ مستقبل میں ترقی کے قابل ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اسے قدرتی مقامات اور بنیادی ڈھانچے کی حالت میں کس طرح بحال کیا جائے گا؟ اب وقت آ چکا ہے کہ تعمیر نو کے وعدے حقیقت میں تبدیل ہوں؛ ورنہ پاکستان کی سیاحت کے شعبے کا اصل چہرہ محض ایک دھوکہ ثابت ہوگا۔ جب ملک کی وادیاں اور برف سے ڈھکے پہاڑ غیر ملکی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے، وہ اب بھی کئی لوگوں کے لیے بند ہیں۔ وہ صنعت جو سیاحت کے ذریعے بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا واحد ذریعہ تھی، اب معدوم ہو چکی ہے۔ مقامی لوگ جیسے گائیڈز، چھوٹے ہوٹل، اور سیاحتی ہنر، جو پہلے اس صنعت پر انحصار کرتے تھے، اب اپنے روزگار کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ تاہم، ان مسائل کے باوجود، پاکستان کی سیاحت کے شعبے کے مستقبل میں واضح امکانات دکھائی دیتے ہیں۔
وزارتِ سیاحت اور دیگر متعلقہ ادارے اب بھی ترقی و بحالی کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ 2023ء میں حکومت نے سیاحوں کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائیں، جیسے کہ نیشنل ای پورٹل، جس کے ذریعے معلومات تک رسائی آسان ہو گئی ہے، ڈیجیٹل سیاحت، جسمانی اور آن لائن بکنگ، اور سیاحتی ڈھانچوں کی پائیداری کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ آئندہ برسوں کے لیے منصوبہ خوش آئند ہے، جس میں ان خوبصورت علاقوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور ایک مضبوط سیاحتی صنعت کی تعمیر کی امید رکھی گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عالمی کمیونٹی اپنے فردی ناکامیوں کے باوجود اپنی ذمہ داری پوری کرے گی یا پاکستان اس مشکل بحالی کے سفر میں اکیلا رہ جائے گا؟۔
اس تنازع کا مرکزی پہلو صوبائی حکومتوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکام اقتصادی شعبے کو آزاد بنانے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور سیاحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے فعال طور پر کام کر نا چاہتی ہیں، لیکن ان کے پاس تباہ شدہ سیاحتی مقامات کو دوبارہ زندہ کرنے میں دشواریاں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالمی فریقوں، حکومتوں اور انسان دوست تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ سیلاب کے بعد کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جا سکے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ٹھوس اور ایمانداری کے ساتھ بحالی کے عمل میں عالمی برادری اپنا حصہ ڈالے، کیونکہ پاکستان کی سیاحت کی قدرتی خوبصورتی اور امکانات ابھی تک ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان میں سیاحت کی ترقی کی کہانی محض نئی تعمیرات اور وعدوں پر مبنی مالی امداد تک محدود نہیں ہو سکتی۔ عالمی بے حسی، جو پاکستان کی حالت کے بارے میں دکھائی دیتی ہے، دراصل امداد اور معاونت کے نظام میں ایک سنگین بنیادی مسئلے کی نشاندہی کرتی ہے۔ 2021ء کے سیلابوں کا مسئلہ صرف ایک مقامی مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ اس کا اثر صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ تاہم، جو امداد متوقع تھی وہ وقت پر نہیں پہنچی، اور جب پہنچی بھی، تو وہ اتنی ناکافی تھی کہ تباہی کا ازالہ ہو سکے۔ عالمی برادری اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، اور نتیجے کے طور پر پاکستان کے شمالی علاقے اب تک ترک شدہ حالت میں ہیں۔
اس وقت پاکستان سیاحت کے شعبے میں ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں قدرتی خوبصورتی کے وہ نظارے آج بھی قابل دید ہیں جو گویا کسی ہزاروں سال پرانی دنیا کے حصے ہوں۔ قدرت کے شاندار شاہکار، بلند پہاڑ، خوبصورت جھیلیں، اور وہ لوگ، جو جہاں بھی جاتے ہیں، اس بات کے غماز ہیں کہ یہ سب کچھ تھا اور پھر سے ممکن ہو سکتا ہے۔ سوال اب بھی یہی ہے کہ آیا دنیا اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کرے گی اور پاکستان کی سیاحت کو دوبارہ عالمی نقشے پر لے آئے گی جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ پاکستان دوبارہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرے، وہ کوشش کر رہے ہیں۔ اور جب وہ یہ بوجھ اٹھا رہے ہیں، تو وہ دنیا کے سامنے یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ وعدے پورے ہونے چاہئیں، کوئی بھی ملک اپنی بحران میں اکیلا نہیں ہونا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button