کوئٹہ میں ایک اور قیامت
سی ایم رضوان
لو جی ایک اور دکھ بھری سناونی آ گئی کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پلیٹ فارم نمبر ایک پر دھماکے میں کم و بیش دو درجن افراد جاں بحق جبکہ تیس سے زائد زخمی ہو گئے۔ ترجمان صوبائی حکومت بلوچستان شاہد رند کا کہنا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار موقع پر پہنچ چکے تھے، واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی گئی تھی جبکہ مرکزی حکومت کے وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے بھی دہشت گردوں کے قریب قریب پہنچنے کی نوید سنائی ہے۔ تاہم دوسری طرف سول اسپتال کوئٹہ میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، طبی امداد کے لئے اضافی ڈاکٹرز اور عملے کو بھی طلب کر لیا گیا تھا، حکومتی اقدامات کے ضمن میں ترجمان صوبائی حکومت شاہد رند کا کہنا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی فورسز بروقت موقع پر پہنچ چکے تھے۔ بم ڈسپوزل سکواڈ، پولیس اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ ریلوے اسٹیشن سے 2ٹرینوں نے روانہ ہونا تھا، دونوں ٹرینوں کے مسافر پلیٹ فارم پر موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اعلیٰ انتظامی حکام سے رابطہ کیا اور واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا، انہوں نے کہا کہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ معصوم افراد کو نشانہ بنانے کا تسلسل ہے، دہشت گردوں کا ہدف اب عام افراد، مزدور، بچے اور خواتین ہیں، دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ بلوچستان سے دہشت گردوں کا قلع قمع کریں گے۔
یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو، کوئی بھی ریاستی رجیم ہو۔ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد ذمہ دار حکام کی جانب سے اسی گا گی گے کا زمانہ ہی بیان کیا جاتا ہے یہاں تک کہ دور اور حکومت بدل جاتے ہیں لیکن دہشت گردی جاری رہتی ہے اور معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی فورسز تک قربان ہوتی رہتی ہیں لیکن موجودہ رجیم کا امن و امان اور معیشت بہتر بنانے کا پلان اپنے مثبت نتائج دکھا رہا ہے اور اگر مرکزی وزیر اطلاعات یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے قریب پہنچ چکے ہیں تو یہ درست بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جب سے موجودہ سیٹ اپ قائم ہوا ہے بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے ساتھ ساتھ خارجی گروہ مصروف کار ہیں اور ملک ترقی کی بجائے روز بروز تنزلی اور تباہی سے نمٹنے جیسے اقدامات میں الجھا ہوا ہے اور ایک عرصہ سے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا سامنا کر رہا ہے، جن میں سے ایک خوارج ہیں۔ یہ دہشت گرد عناصر نہ صرف ملک کے امن کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ معاشرتی تقسیم کو فروغ دینے کے لئے عوام اور فوج کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی سازشوں میں بھی مصروف رہتے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ خوارج جیسے ملک دشمن اپنے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوئے اور نہ ہی آئندہ ہوں گے، کیونکہ عوام اور فوج کا اتحاد ناقابل تسخیر ہے۔
خوارج تاریخی طور پر وہ گروہ ہیں جو مذہبی شدت پسندی کے باعث اسلام کے بنیادی اصولوں سے منحرف ہوئے اور خلافت کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ آج بھی ان کے نظریات کو اپنائے ہوئے مختلف شدت پسند گروہ پاکستان میں انتشار اور فتنہ پھیلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ گروہ خود کو اسلام کا علمبردار قرار دیتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ اسلام کی غلط تشریح کرتے ہوئے معصوم لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔ ماضی میں خوارج کی دہشت گردانہ کارروائیاں خصوصاً قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخوا میں زیادہ دیکھی گئی ہیں جبکہ بلوچستان میں ناراض بلوچوں کے نام پر علیحدگی پسندی کی تحریکوں کی گھنائونی آڑ میں دہشت گرد اپنے ہی لوگوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ کون سی حریت پسندی ہے جو انسانی خون کی بیجا ارزانی کا تقاضا کرتی ہے، جو اپنے ہی محافظوں کے قتل پر اکساتی ہے اور اپنے ہی ملک کو تباہ کرنے کی راہ دکھاتی ہے، یہ کون سی حقوق کی نگہداشت ہے جو آسان ہدف کے طور پر معصوم شہریوں کو بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں مار دینے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ یقیناً یہ پاگل پن کسی ملک دشمن طاقت کا بنا ہوا جال ہے جس کی پکڑ میں آ کر بیک وقت بلوچستان کے مقامی لوگ مر بھی رہے ہیں اور مار بھی رہے ہیں۔
خوارج کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ عوام اور پاک فوج کے درمیان اختلافات پیدا کریں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام اور فوج ایک ساتھ کھڑے رہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے اس لئے یہ عناصر دہشت گردانہ حملے کر کے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں اور پھر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ریاست ان کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں پی ٹی ایم جیسے گروہ، جو بظاہر امن کے داعی ہیں، اکثر خوارج کے ناپاک ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور فوجی آپریشنز کو روکنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں، تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل سکے۔ درحقیقت، یہ عناصر خوارج کے سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں اور عوام کو ریاست کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ قبائلی عوام ہمیشہ سے اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ملک کو اندرونی یا بیرونی خطرات کا سامنا ہوا، قبائلی عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ خوارج کی تمام سازشوں کے باوجود قبائلی عوام جانتے ہیں کہ پاک فوج ہی ان کی حقیقی محافظ ہے۔
شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں عوام نے پاک فوج کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف لڑائی میں حصہ لیا بلکہ ان کی مخبری کر کے خوارج کو ان کے بلوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان کی مسلح افواج نے ہمیشہ دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والے حالیہ آپریشنز اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دہشت گردوں کو کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ چاہے وہ بلوچ علیحدگی پسند ہو یا کوئی اور خارجی، پاک فوج ہر دہشت گرد کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔ بلوچستان میں ایک مربوط حکمت عملی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا پروگرام شروع کرنے کی ضرورت محسوس کر لی گئی ہے اب بلوچستان کے دہشت گردوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کی طرف میلی نظر اٹھانے سے پہلے انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس وطن کے بہادر سپوت ہمہ وقت چوکس ہیں۔ عوام کے تعاون سے دہشت گردی کا ہر سانپ اپنا سر کھو چکا ہے اور بہت جلد بلوچستان کے باقی بچے ہوئے عناصر بھی انجام کو پہنچیں گے۔
پاکستان کی ریاست اور افواج نے ہمیشہ یہ واضح پیغام دیا ہی کہ جو لوگ ہتھیار ڈال دیں اور راہِ راست پر آجائیں، ان کے لئے معافی اور اصلاح کا موقع موجود ہے لیکن جو لوگ دہشت گردی کا راستہ اپناتے رہیں گے، ان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ہر سانپ کا سر کچلا جائے گا اور خوارج کے باقی بچے عناصر بھی جلد انجام کو پہنچیں گے۔ ناراض بلوچوں کی تنظیمیں جو کہ بظاہر بلوچستان کے نوجوانوں کی ہمدرد بننے کی دعویدار ہیں دراصل خوارج کے ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہیں۔ یہ لوگ بلوچی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے علیحدگی کے شرم ناک اور جھوٹے نعرے لگاتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دہشت گردوں کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ خوارج جب معصوم عوام کو شہید کرتے ہیں تو ان علیحدگی پسندوں کے رہنما ان کی لاشوں پر سیاست کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ جو پاکستان کے آئین اور قانون کو نہیں مانتے، بلوچستان کے بھولے بھالے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اکسانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن اکثر باشعور نوجوان ان عناصر کو پہچان چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ پاکستان کی اصل ترقی اور خوشحالی ریاست اور پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہنے میں ہی ہے۔ ان حالات میں بیشک دہشت گردی کے واقعات ایک تسلسل سے ہو رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ انسانیت کے دشمن اپنی کمین گاہوں اور سہولت کار اڈوں اور طاقتوں کو بھی ننگا کر رہے ہیں۔ لہٰذا جہاں یہ دکھ محب وطن پاکستانیوں کے دلوں کو بھاری محسوس ہو رہا ہے وہاں یہ امید بھی مضبوط ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے کیونکہ اس ملک کے عوام اور افواج کے درمیان ایک لازوال رشتہ قائم ہے۔ حکومت اور پاک فوج نے ہمیشہ بلوچستان کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کیے ہیں۔ یہاں معیاری تعلیمی ادارے، روزگار کے مواقع، صحت کے مراکز اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست صرف اور صرف بلوچ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج اور عوام کا اتحاد ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے، یہ اتحاد ہی وہ قوت ہے جو خوارج جیسے دشمنوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
خوارج، چاہے کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کر لیں، پاک فوج اور عوام کے اتحاد کو نہیں توڑ سکتے۔ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ان کی حفاظت اور ترقی کا واحد ذریعہ پاک فوج کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ آج یہ دکھ تو ہے کہ کوئٹہ دھماکے میں درجنوں خاندانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی لیکن یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ دہشت گردوں کا انجام ہمیشہ موت اور شکست ہے اور اس جنگ میں پاکستان کی فتح یقینی ہے۔