جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
صفدر علی حیدری
خداوند متعال نے اپنی جس مخلوق کا عزت بخشی اور بنا کر اس پر فخر کیا ہے وہ یقیناً انسان ہی ہے۔ یہ دیگر بات کہ اس کی خامیوں کا بھی برملا اظہار کیا ہے ۔
جھگڑالو ہے، جلد باز ہے، خسارہ اٹھانے والا ہے، ظلم کرنے والا ہے، نا شکرا ہے، کمزور ہے، کم حوصلہ ہے، بھلا دینے والا ہے، بے انصاف ہے، مایوس ہو جانے والا ہے، تنگ دل ہے۔
مگر اس سب کے باوجود اسے اپنی یہ مخلوق بہت پیاری ہے۔ جبھی تو اس نے انسان کے سر پر خلافت ارضی کا تاج رکھا ہے ۔
’’ بیشک ہم نے انسان کو بہترین ( اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔ ‘‘
اس نے انسان کو بتایا کہ اگر تو زندہ ہے تو دکھا تو زندہ ہے۔
دکھا کہاں ہے تیری دنیا
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
تجھے اس نے پر دئیے ہیں اور اڑان کی طاقت اور آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشا ہے
تو شاہین ہے اور بلندی تیرا مقدر ہے
تو شاہیں ہے پرواز کام تیرا
تیرے آگے آسماں اور بھی ہیں
اور
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
اسے اس رزق سے موت اچھی لگتی ہے کہ جس سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو
اقبال کے الفاظ میں
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
مگر اقبال کا شاہین بننا ایسا آسان بھی نہیں۔ اس کے لیے خودی کو اپنا رہبر ماننا پڑتا ہے۔ سر جھکا کر اس کے پیچھے چلنا کرتا ہے۔
عقل کو چراغِ راہ جان کر، عشق کو اپنا مرشد مان کر خودی کا حامل خود آگاہ ہوتا ہے اور خود آگاہی خدا آشنائی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ خود انحصاری کا راستہ ہے۔ خود مختاری کی منزل ہے۔ ایسا انسان اقبال کا مرد مومن کہلاتا ہے۔ شاہین بن جاتا ہے۔ اس میں عقابی روح بیدار ہو جاتی ہے اور پھر
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
یہ عقابی روح روح بے داغ شباب کا لازمہ ہے۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا بے داغ، ضرب ہے کاری
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیا کی بھول بھلیوں میں ایسا کھوتا ہے کہ اپنے خدا تک کو بھول جاتا ہے۔ زمین پر آنے کا مقصد تک بھول جاتا ہے اور پھر یہ خدا فراموشی یعنی احسان فراموشی اسے خود فراموشی کی طرف لے جاتی ہے۔
یہی کتاب کہتی ہے کہ
’’ خدا فراموشی کا لازمہ خود فراموشی ہے۔ خود فراموشی کا لازمہ فسق ہے‘‘۔
انسان من و سلویٰ سے اکتا کر ککڑی پیاز کی طلب کرنے لگتا ہے۔ اسے رزق کمانا اپنی زندگی کا مقصد لگنے لگتا ہے۔ جانور کی طرح کھانا پینا اور جماع کرنا اس کا مقصود ٹھہرتا ہے۔ اس کی ہمت اس کے پیٹ تک محدود ہو جاتی ہے۔ اسے پیٹ کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔
اس کی نظر میں زندگی کا مقصد بس یہی رہ جاتا ہے کہ’’ اللہ نے پیٹ اس لیے دیا ہے کہ اسے بھرا جا سکے اور پھر اسے خالی اس لیے کیا جائے کہ پھر سے بھرا جا سکے‘‘۔
ایسے آدمی کا پیٹ تو بھر جاتا ہے، نگاہ سیر نہیں ہوتی۔
’’ ڈھڈ رجا ہویا تے اکھیں بھکیاں ‘‘
قناعت سے عاری، توکل سے دور ایسے حریص کا پیٹ تو بس قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔
کہتے ہیں جب آدم علیہ السلام کے جسم میں روح پھونکی گئی اور وہ ابھی ٹانگوں تک ہی پہنچی تھی کہ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔
انسان کی اسی جلد بازی نے اسے ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا ہے، اس نے اپنی جلد بازی کے سبب خلافت ارضی کی ذمہ داری کے لیے اپنا کندھا پیش کر دیا۔ حالاں کہ اس کائنات کی ہر چیز یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر چکی تھی۔
نائب بننے کے بعد انسان زمین پر آتا ہے تو اپنا مقصد حیات بھول جاتا ہے۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ رزق اس کا مالک سب کو دے گا مگر ہدایت کسی کسی کو، یعنی جس کو وہ خود چاہے گا۔
اب ہوا یہ کہ جس چیز کی ذمہ داری خالق نے اپنے سر لی تھی، انسان اس کی تگ و دو میں لگ گیا۔ صبح سے رات تک وہ رزق کے لیے مارا مارا پھرنے لگا اور یوں اسے یاد ہی نہ رہا کہ اسے ہدایت کی بھی ضرورت ہے۔ جو سب کا مقدر نہیں ہوتی۔ ہدایت مانگنا پڑتی ہے۔ کاسہ گدائی آگے بڑھانا پڑتا ہے، سر کو جھکانا پڑتا ہے، انکسار اپنانا پڑتا ہے۔ تکبر کو خیر آباد کہا پڑتا ہے۔ خود کو اس قابل بنانا پڑتا ہے کہ اس پر رحمت کی نظر کی جائے۔
اور حدیث میں آتا ہے ’’ خدا جس کی بہتری چاہتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے ‘‘۔
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ رزق کے لیے خود کو مت گرائو، آپؓ ہی کا فرمان ہے’’ اے فرزند آدم! اس دن کی فکر کا بار جو ابھی آیا نہیں آج کے اپنے دن پر نہ ڈال کہ جو آ چکا ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک دن بھی تیری عمر کا باقی ہو گا تو اللہ تیرا رزق تجھ تک پہنچائے گا‘‘۔
اب انسان خود سے سوال کرے کہ اس نے رزق کے لیے کتنی کوشش کی اور کتنی کوشش ہدایت کے لیے کی۔
اقبالؒ نے تو ایسے رزق سے موت کو بہتر قرار دیا ہے جس پرواز میں کوتاہی آتی ہو اور ہم ہیں کہ رزق کو ہی اپنا منتہا اپنا مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور مزے کی بات دیکھئے کہ پھر بھی ہمیں روزی نہیں ملتی، لگتا ہے جیسے یہ ہم پر تنگ کر دی گئی ہے ہو۔
شاید اس لیے کہ ہم دنیا کی اچھی زندگی چاہتے ہیں، آخرت کی نہیں۔
پیرو و مرشد نے ایک صدی قبل فرما دیا تھا:
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے