ColumnImtiaz Aasi

قاضی کا عہد تمام ہوا

نقارہ خلق
امتیاز عاصی
پاکستان کی تاریخ میں بہت سے چیف جسٹس ہو گزرے ہیں جنہیں کوئی یاد نہیں کرتا تاہم بعض ایسے منصف ہو گزرے ہیں جو عدلیہ کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔ جسٹس منیر سے ایم آر کیانی اور قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان بعض ایسے چیف جسٹس گزرے ہیں جو اپنی راست بازی کے حوالے سے عدلیہ کی پہنچان بن گئے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور پر نظر ڈالیں تو ایک سیاسی جماعت نے ان کی عدالت پر حملہ کرکے یہ باآور کرانے کی کوشش کی انہیں من پسند فیصلوں کی ضرورت ہے تاہم سید سجاد علی شاہ نے ان کے راستے میں دیوار بن کر ثابت کیا وہ جسٹس عبدالقیوم نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے ایک منصف اعلیٰ نے بعض حلقوں کو ممنون کرنے کی خاطر ایک منتخب وزیراعظم کو محض اقامہ رکھنے کی پاداش میں ان کے منصب سے فارغ کرکے اعلیٰ عدلیہ میں اچھی مثال قائم نہیں کی۔ فطرت انسانی ہے کوئی انسان مکمل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا جیسا کہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات دہرائی انسان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں اور سچ اوپر والا جانتا ہے جس کے بعد قاضی صاحب پر تنقید کا باب بند ہو جانا چاہیے۔ سنیئر موسٹ جسٹس جناب منصور علی شاہ نے رجسٹرار کے نام اپنے مراسلے میں کہا ہے قاضی صاحب کے دور میں اعلیٰ عدلیہ پر بیرونی دبائو کے در کھلے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے عدلیہ میں تفریق پیدا کرکے بیرونی دبائو کا سامنا کرنے کی بجائے مداخلت کے دروازے کھولے۔ اس کے برعکس یہ بھی دیکھنا چاہیے یہ قاضی فائز عیسیٰ تھے جنہوں نے فیض آباد دھرنے کے خلاف فیصلہ دے کر ایک اچھی مثال قائم جس کی پاداش میں انہیں ایک ریفرنس کا سامنا کرنا پڑاجس کی سماعت کے دوران انہیں اور ان کی اہلیہ دونوں کو سپریم جوڈیشل کونسل کے روبرو پیش ہوکر اپنی صفائی دینا پڑی۔ عدلیہ میں ججوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے ایک نہ ایک دن ہر ایک کو اپنے منصب سے سبکدوش ہونا ہوتا ہے لہذا قاضی فائز عیسیٰ کا ملازمت سے ریٹائر ہونا انہونی بات نہیں۔ ملک کے ایک پسماندہ صوبے سے اپنی وکالت کا آغاز کرنے والے قاضی فائز عیسیٰ کا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جو بہت کم وقت میں چیف جسٹس کے منصب پر پہنچے۔ عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہے جناب قاضی کو بطور جسٹس کام کئے بغیر مشرف دور میں اس وقت بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا جب ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو ان کے عہدے سے سبکدوش کرکے ایک اچھی مثال قائم کی۔ گو ملک میں ہونے والے انتخابات متنازعہ رہے تاہم عام انتخابات کے انعقاد کا حکم دے کر قاضی صاحب نے ایک اور اچھی مثال قائم کی۔ اس کے ساتھ 27ویں آئینی ترمیم کا شور و غوغا ہے۔ 26 ویں آئینی ترامیم کے موقع پر بعض تکنیکی نکات رہ جانے سے اس بات کا قوی امکان ہے حکومت آئین میں ایک اور ترمیم کرنے جائے گی۔ حکومت من پسند ججوں کا تقرر کرنے کی لئے ایکٹ میں ترمیم لا رہی ہے جس سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اعلیٰ عدلیہ سے مرضی کے فیصلوں کا حصول مسلم لیگ نون کی حکومت کا بہت پرانا وتیرہ ہے۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں ججوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی میں حکومتی ارکان کی تعداد زیادہ ہونے سے دیگر ارکان کا کردار محض نمائشی ہوگا جس کے بعد من پسند ججوں کا تقرر آسانی سے ہو سکے گا۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے جن قوموں میں انصاف کا فقدان ہو اور فیصلے کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کی تمیز رکھی جائے ایسے معاشرے صحفہ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے ہماری عدلیہ منقسم ہو چکی ہے قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان کی عدم شرکت نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سوال ہے سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان چیف جسٹس کے منصب پر منصور علی شاہ کو دیکھنا چاہتے تھے لیکن چیف جسٹس کے منصب پر فائز کرنے کے لئے طریقہ کار بدلنے سے سنیئر جج صاحبان کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بادی النظر میں عدلیہ واحد ادارہ ہے جہاں سے عوام کو انصاف کی امید ہوتی ہے عدلیہ میں میرٹ سے ہٹ کر اور اقربا پروری کو مدنظر رکھ کا تقرریاں ہوں گی تو عوام میں مایوسی کا ہونا قدرتی بات ہے۔ ملک میں جو سیاسی صورتحال ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جس کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہیں۔ پی ٹی آئی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے بانی سمیت مرد و خواتین ورکرز کی بڑی تعداد کو سانحہ نو مئی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ حالیہ آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا غلغلہ وقتی طور پر رک گیا ہے تاہم اس ضمن میں خطرہ بدستور موجود ہے۔ بظاہر پی ٹی آئی نے آئینی ترامیم کے موقع پر دونوں ایوانوں کی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ہے لیکن پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی رکن کا آئینی ترامیم پر اتفاق نے معاملات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا غفور حیدری نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے آئینی ترامیم سے پی ٹی آئی نے اتفاق کیا ہے۔ ملک کے عوام اور سیاسی جماعتوں خصوصا پی ٹی آئی کو قاضی فائز عیسیٰ کے دور کو بھلا دنیا چاہیے اور آنے والے وقت میں بہتری کی امید رکھنی چاہیے۔ یہ بات درست ہے پی ٹی آئی اور وکلاء کے بعض گروپس کو رخصت ہونے والے چیف جسٹس کی کاکردگی پر اعتراضات ہیں لیکن اپنے الوداعی ریفرنس میں سابق چیف جسٹس کا یہ کہنا غلطیاں انسان سے ہو سکتی ہیں، کی بعد جن جن لوگوں، خواہ وہ حکومت یا اپوزیشن میں ہوں، قاضی فائز عیسیٰ پر مزید تنقید سے گریز کرنا چاہیے اور مستقبل کی فکر کرنے چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button