جنرل فضل حق کی 33ویں برسی

تحریر : ضیاء الحق سرحدی
جنرل فضل حق کا شمار ہمارے انتہائی قابل احترام اور دبنگ جرنیلوں میں ہوتا تھا، انہیں ہم سے جدا ہوئے پورے 33برس گزر گئے،3اکتوبر1991ء کو جب وہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپس جارہے تھے تو ڈیفنس کالونی پشاور گھر کے قریب گھات میں بیٹھے کرائے کے قاتلوں نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ اس دور کے وزیراعلی سرحد میرا فضل خان نے اس واقعہ کے بارہ دن بعد15، اکتوبر1991ء کو سرحد کی صوبائی اسمبلی میں صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر بحث سیمٹتے ہوئے کہا تھا کہ ، فضل حق کا قتل ہماری حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے، وہ چیلنج آج بھی ہر دور کے لئے دیگر قومی سانحات کی طرح موجود ہے، ماضی قریب میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت رہی اس کے لئے وہ سانحہ اور بھی توجہ طلب تھا کیونکہ فضل حق کا عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں سی عقیدت و احترام کے علاوہ ذاتی تعلق بھی تھا، لیکن فضل حق کا خیال کسی کو نہ آیا حتی کہ جنرل فضل حق جب قتل ہوئے تو ان دنوں صوبہ سرحد کے گورنر ان کے نوجوانی کے دوست بریگیڈئیر گلستان جنجوعہ تھے مگر وہ بھی کچھ نہ کر سکے، جبکہ وہ گائوں گائوں، گلیوں، گلیوں پہنچتے تھے۔ تعلیم کے بعد مواصلات ان کی دوسری ترجیح تھی، ان کے دور میں863میل پختہ سڑکیں تعمیر ہوئیں650میل نئی کچی سڑکیں بنی تھیں، ہزار وں میل پرانی سڑکیں کشادہ کیں116بڑے پل بنائے گئے سالانہ 1250روپوں کا 24فیصد تعلیم پر خرچ کیا،3یونیورسٹیاں33ڈگری کالج بنوائے 221ہائی اسکول330مڈل اور تین ہزار پرائمری اسکول بنائے ،ان کا سارا زور پرائمری تعلیم پر تھا،وہ بتایا کرتے تھے کہ انہیں جہاں کہیں دور دراز چند گھر دکھائی دیتے، وہ دشوار گزار راستوں سے پیدل وہاں پہنچ جایا کرتے کبھی کبھی ہیلی کاپٹر سے اچانک کسی گائوں جا اترتے اور فوری طور پر وہاں پرائمری اسکول تعمیر کرنے کا حکم دیتے پھر دیگر محکموں کو کہتے اسکول کی بلڈنگ بننے سے پہلے وہاں پانی بجلی اور سڑک پہنچائی جائے یوں ویرانے آباد ہوتے گئے اور بستیاں علم و نور سے منور ہوتی رہیں۔ جنرل فضل حق کے دور میں خیبر پختونخوا کی سڑکیں پورے ملک میں مثالی سمجھی جاتی تھیں لیکن اب گزشتہ کافی عرصے سے وہی شاہراہیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں وہ سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والی بجری کو دھلوایا کرتے تھے اس عمل کو یقینی بنانے کے لئے وہ اکثر کسی نہ کسی زیر تعمیر سڑک پر جاکر ہیلی کاپٹر سے اترتے گھنٹوں وہاں موجود رہ کے کام کا جائزہ لیا کرتے تھے ان دنوں ٹھیکیداروں اور صوبائی انتظامیہ کی نگاہیں جنرل فضل حق کے ہیلی کاپٹر کے انتظار میں فضاں کو گھورتی رہتی تھیں۔ جنرل فضل حق ستمبر1928ء کو ضلع مردان میں پیدا ہوئے تھے تیسری جماعت تک مردان میں پھر 1935ء سے1939 ء تک کوہاٹ میں پڑھے، اس کے بعد دِہرہ دُون ( انڈیا) ملٹری اکیڈمی چلے گئے وہیں سے ستمبر1946ء میں فوج کے لئے منتخب ہوئے گائیڈز کیولری کوہاٹ سے انہوں نے باقاعدہ فوجی زندگی کا آغاز کیا وہ جب میجر تھے تو فیلڈ مارشل ایوب خان کے باڈی گارڈ دستے کے انچارج رہے، انہی دنوں ذوالفقار علی بھٹو ان کے قریب ہوئے۔1965ء کی پاک بھارت جنگ انہوں نے سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ پر لڑی۔ زندگی کی ہر سطح پر ان کی خدمات بے پایاں ہیں، جدوجہد ان کا ماٹو تھا، ان کی ساری فوجی سروس فیلڈ میں گزری، وہ ایک دن بھیGHQمیں نہیں رہے، وہ کور کمانڈر بھی ہوئے، مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی رہے ۔1988ء میں انہیں نگران وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے صوبے میں خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا، انہوں نے سیاست میں حصہ لیا لیکن اس شہر سے جہاں انہوں نے بے شمار ترقیاتی کام کئے عام انتخابات میں انہیں شکست ہو گئی تا ہم وہ کوہستان سی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے۔ جنرل فضل حق 1988ء میں سینیٹر منتخب ہوئے اور اس کے بعد مئی1988ء میں اسی صوبے کے 15ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ جنرل فضل حق اپنے دور میں ایک طاقتور شخصیت ثابت ہوئے تھے اور اپنی کارکردگی سے عوام کا اعتماد حاصل کیا۔ وہ بحیثیت گورنر نمایاں شخصیت قرار پائے اور اپنی بہترین لیڈر شپ کے ذریعے طرز حکمرانی میں بہتری لائی۔ انہوں نے اپنے دور میں معاشی ترقی پر زیادہ زور دیا، وہ عموما انفرا سٹرکچر کی ترقی کے حوالے سے یاد کئے جائیں گے لیکن اصل میں انہوں نے تعلیمی خدمات کی فراہمی کیلئے نمایاں اقدامات اٹھائے تھے۔ ایک آرمی جنرل اور ایڈمنسٹریٹر کے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی کار کردگی کے بل بوتے پر اپنے لئے سیاسی حلقہ بھی بنا لیا اور اپنے ساتھی سیاستدانوں کی زبانی وہ واحد جنرل تھے جو کامیاب سیاست کی طرف منتقل ہوئے ۔ اپنی خدمات کی وجہ سے بطور انسان سولجر انسان ، سولجر اور لیڈر شپ عوام کا بے حد احترام کرتے تھے، حتی کہ بعد از مرگ ان کی دو آنکھوں کے عطیے نے دو انسانوں کی بینائی بحال کی اور وہ دوبارہ اس کائنات کو دیکھ سکے۔ جنرل فضل حق دبنگ گورنر تھے جو آرڈر دیتے اس پر عملدرآمد کراتے۔ حکم دیتے اور انگریزی میں کہتے ’’ ڈو اینڈ رپورٹ می‘‘ کام چوروں اور کرپٹ لوگوں کے لئے سخت مگر عام زندگی میں نرم تھے۔ بیوروکریسی تو کاپنتی تھی۔ مہینے میں بیس دن دفتر میں کام کرتے اور دس دن فیلڈ میں جاتے۔ مختلف علاقوں کے دورے کرتے۔ کہتے کہ دیکھتے ہیں کہ ان کے احکامات پر کس حد تک عمل در آمد ہوا ہے۔ اور جو کام نہ ہوتا تو اس افسر کی خیر نہ ہوتی۔ بھری مجلس میں ایسی کلاس لیتے کہ اسے اماں بابا یاد آجاتا۔ سب حیران ہو جاتے۔ ان دنوں پی ٹی وی سے پشتو کا ایک پروگرام چلا کرتا تھا ’’ سوک بدے تپوس کئی‘‘ کون پوچھے گا تمہارا ‘‘ جنرل فضل حق نے جب یہ پروگرام دیکھا تو انہوں نے برملا سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ زا بہ تپوس کوم‘‘ یعنی کہ میں پوچھوں گا۔ پھر انہوں نے یہ کام کر دکھایا۔ جنرل فضل حق اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کے قریب رہے اور اخبار نویس ان کے قریب۔ اخبار نویس ان کے ہر دورے میں ان کے پیچھی پیچھے اور ساتھ ساتھ ہوتے۔ کبھی نظر نہ آتے تو جنرل فضل حق پیچھے مڑ کر مسکراتے ہوئے مذاق میں کہتے۔ کہاں ہے میری امت۔ راقم ضیاء الحق سرحدی کی بھی اکثر جنرل فضل حق صاحب سے کئی ملاقاتیں رہی۔ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر بھی رہے زندگی کے آخری دنوں میں وہ صوبائی اسمبلی کے ممبر تھے ان کی بیگم ان سے کہا کرتی تھیں کہ لوگ ترقی کرتے ہوئے نیچے سے اوپر جاتے ہیں مگر آپ اوپر سے نیچے کی طرف آرہے ہو اب ضلع کونسل کا ممبر کب بنو گے؟ جنرل فضل حق بہت ہمدرد انسان تھے وہ ہر وقت کسی نہ کسی کی مدد کو پہنچے رہتے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل فضل حق بلاشبہ ایک قابل فخر ایڈمنسٹریٹر اور اس صوبے کے عوام سے محبت کرنے والی شخصیت تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا نام آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ وہ جس کو پسند کرتے، دل و جان سے اسکا احترام کرتے تھے اور جسے ناپسند کرتے اسے بتا دیا کرتے تھے، ڈھکی چھپی یا لگی لپٹی بات ان سے میلان نہیں کھاتی تھی وہ ہر وقت خوش رہتے تھے سیاست کی دنیا میں ان جیسے کھرا کم کم دکھائی دیتے ہیں حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ۔