جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ نظریاتی، معاشی سرحدوں کا تحفظ بھی ناگزیر

امتیاز یسین
چھ ستمبر کا قومی دن زندہ، بہادر اور خود مختار قوم کی پہچان کی علامت ہے۔ جب حربی ساز و سامان اور اپنی عسکری قوت کے غرور میں ڈوبے روایتی دشمن بھارت نے بین الاقوامی امن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کر دیا۔ جواباًقابلِ فخر دفاعی صلاحیتوں سے مالا مال، جذبہ شہادت سے سرشار پاکستانی افواج اور قوم نے دشمن کو اُس ہزیمت سے دوچار کیا اور سبق سکھایا جس پر وہ عمر بھر زخم چاٹتا رہے گا۔ وطن کی حفاظت میں پوری قوم نے سیسہ پلائی دیوار بنے دشمن کے چھکے چھڑا دیئے۔ وہ حملہ آور جو صبح کا ناشتہ لاہور کرنے اور جم خانہ لاہور میں وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دینے کے ساتھ ساتھ فتح کے جشن منانے کا سامان ساتھ لیکر آئے تھے ان کی امیدوں اور مکروہ عزائم پر اس وقت پانی پھر گیا جب پاکستانی قوم نے قومی غیرت و حمیت اور یکجہتی کے لازوال مظاہرہ سے مخالف کو وہ دھول چٹائی جس پر پوری دنیا حیران رہ گئی۔ افواج ِ پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں اور قوم نے اپنی افواج کے شانہ بشانہ دشمن کو ہیڈ سیلمانکی، راجھستان، چھمب،جوڑیان سیکٹر وغیرہ کے محاذ پر ناکوں چنے چبواتے ہوئے نہ صرف حملوں کو روکا بلکہ انہیں پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے راجھستان سے بارہ سو کلو میٹر، ہیڈ سلیمانکی سے چالیس مربع میل دشمن کی زمین پر بھی قبضہ کر کے گھر میں گھس کر مارنے کی مثال قائم کر دی ۔ بھارت کی تباہی کو دیکھ کر عالمی مبصر اور صحافی بھی انگشتِ بدنداں رہ گئے۔ پاکستانی قوم اور عسکری قوتوں نے دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے اپنے جسموں سے بندھے، لتھڑے بارود سمیت ٹینکوں کے آگے لیٹ کر انہیں کباڑ کا ڈھیر بنا ڈالا ۔ جس بہادری اور جانفشانی کا مظاہرہ چشمِ فلک اور دنیا نے پہلی مرتبہ دیکھا۔ سترہ دن تک لڑی جانے والی یہ جنگِ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کے استعمال ہونے والی بڑی جنگ تھی جس کے شعلے پاکستانی افواج اور قوم نے اپنے خون لہو، قربانیوں سے بجھا دئے تھے۔ اس جنگ میں شہید ہونے والے جانبازوں اور شہریوں کی عظمت کو سلام جنہوں نے اپنی زندگیوں کی قربانیوں سے وطن عزیز کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ بھارت نے خود ہی جنگ کی پہل کی اور پھر اپنی تاریخی درگت بننے پر اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی برادری کے پاس جنگ رکوانے کے لئے مارا مارا پھرتا رہا۔ آج کا دن ہمیں خارجی محاذوں کے ساتھ ساتھ اندرونی مسائل کو حل کرنے کے عزم کے اعادہ کا درس دیتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے مضبوط، سیاسی عدم استحکام و محاذ آرائی سے مبرا، اندرونی خلفشار اور کرپشن سے پاک، انصاف کی عملداری کا حامل ملک ہی بیرونی چیلنجز سے کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے بھارت پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمارے پانی کے وسائل پر قابض و غاصب ہے اور سال بھر ہم زراعت کے لئے پانی کی بوند بوند کو ترستے رہتے ہیں۔ پاکستان کا نہری نظام دنیا کا بہترین نہری سسٹم تصور ہوتا ہے لیکن ایسے اچھے نظام کا کیا فائدہ جب ان میں سال میں چھ ماہ پانی نہیں بلکہ خشکی ریگ رواں رہتی ہے ۔ ہم نے اپنی ضرورت کے تحت ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر نہ کر کے اپنی زراعت کو بنجر کئے بیٹھے ہیں ، نہ ختم ہونے والے بجلی بحران کا سامنا ہے، زرعی ملک ہونے کے ناطے گندم جیسا غلّہ بھی بھاری زرِ مبادلہ کے عوض باہر سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں، چینی، پیاز، ٹماٹر تک قلیل و نایاب ہو جاتے ہیں۔ نصف درجن سے زائد ہولناک اور تباہ کن سیلاب جب کہ بیسیوں چھوٹے سیلابوں کی وجہ سے اپنے بے تحاشا جانی و مالی نقصان کرواتے چلے آ رہے ہیں۔ سیلاب سے عمارات، میدان، گھر، سرکاری بلڈنگز، شہر ڈوب جاتے ہیں۔ ہزاروں انسانی جانیں، لائیو سٹاک کا ذخیرہ تلف ہو جاتا ہے۔ لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گرا کر ضائع کر لیتے ہیں۔ بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔ سیلاب کا ذمہ ہم بھارت کے پانی چھوڑنے پر لگا کر خود اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں، تلخ حقیقت ہے کہ دشمن نے کب ہمیں کہا تھا کہ تم ڈیمز کی تعمیر نہ کر کے سیلاب اور خشک سالی سے تباہ کاریاں کرتے رہو؟۔ اس معاملہ میں ہم سب قومی مجرم ہیں، جنہوں نے پچھتر سال سے پانی کی ایک وسیع مقدار سے یا تو سیلاب کے عذاب جھیلتے چلے آتے ہیں یا سمندر میں ضائع کر کے خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہزار دعوئوں کے باوجود ملک میں کرپشن، بد عنوانی، بد نظمی کا حقیقی طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا، تعلیم، صحت، زراعت، صنعت جیسے اہم ادارے بھی تنزلی کا شکار ہیں ۔ قومی سلامتی کے ناقابل تسخیر تحفظ کو جدید دور کے تقاضوں سی ہم عصر بنانے کے لئے قومی ہم آہنگی سے مزّین مضبوط و منظم ریاست، اجتماعی و قومی یکجہتی اور معاشی ترقی کے لئے آبی ذخائر کی فوری تعمیر کا ہونا ناگزیر ہے۔ کشمیر کی آزادی بھی ہر لحاظ سے مضبوط پاکستان کی متقاضی ہے۔ بیرونی دشمن قوتوں کی در اندازی سے پیدا ہونے والے معاشی ،انسانی، امن و سلامتی کو لاحق نقصان و خطرات اور دہشت گردی، چیلنجز سے نمٹنے کے لئے دور درس سکیورٹی پلان مرتب کیا جائے۔ چین، عرب ممالک سمیت دوست ممالک کے ساتھ تجارتی و سیاسی دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جانا ضروری ہے۔ خود کفالت و خود انحصاری کے لئے ہمیں اپنی زراعت کو بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔