ColumnTajamul Hussain Hashmi

مولانا فضل الرحمان سے اچانک ملاقات اہم کیوں؟

تجمل حسین ہاشمی
رواں ہفتہ صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، جس کے بعد جمعہ کو وزیراعظم شہباز شریف بھی ملاقات کیلئے ان کے ہاں پہنچ گئے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے بھی ان سے ملاقات کی۔ یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت پر کی گئی ہیں جب ایک جانب پی ٹی آئی آٹھ ستمبر کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے اور دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ہونے جارہے ہیں جس میں قیاس آرائیاں ہیں کہ حکومتی اتحاد عدالتی اصلاحات پر مشتمل آئینی ترامیم پیش کر سکتا ہے جوکہ پیش ہوکر موخر کر دیا گیا ہے۔ موخر ہونا واضح کر گیا ہے کہ حکومت کو قانون سازی میں جے یو آئی کی حمایت درکار ہوگی لیکن حمایت کی یقین دہانی نہ ہونے سے بل موخر ہوگیا ہے کیونکہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر فیصلے کے بعد حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہوچکی ہے۔ مولانا فضل الرحمان سے حکومتی رہنما اور حزب اختلاف کی جماعت کے اچانک رابطوں پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے، جو اب دم توڑ گئے ہیں۔ میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومتی رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں سیاسی حمایت حاصل کرنے کیلئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ جے یو آئی اس کے ساتھ ملکر حکومت کیخلاف کوشش کریں۔ مولانا کی کسی سے کوئی بھی کوئی ذاتی ناراضی نہیں۔ البتہ ترجمان کا کہنا ہے کہ حکومت کا ساتھ اس لئے نہیں دے رہے کیوں کہ یہ بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ ہمارا دھاندلی زدہ انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن سے اتحاد برقرار ہے اور رہے گا۔ جوکہ بل کے موخر ہونے پر واضح ہوگیا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا جہاں تک گورنرشپ یا سینیٹ میں نشستوں کی زیر گردش آفر کا تعلق ہے تو ہمیں اس سے پہلے وزیراعظم شہباز شریف بڑی بڑی آفرز دے چکے ہیں۔ لیکن ہمارا اصولی مقف ہے۔ ہم اس بات پر قائم ہیں کہ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہماری جو سیاسی اہمیت ہے وہ سیٹوں یا عہدوں کی محتاج نہیں۔ ہم 90فیصد اپوزیشن کے ساتھ ہیں اور 10فیصد جہاں قومی و ملکی مفاد ہوگا۔ اس میں حکومت کا ساتھ بھی دے سکتے ہیں۔ یہ ایک واضح موقف سامنے آیا ہے۔ اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو مولانا نے پی ٹی ائی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیا تھا۔ اس وقت بھی مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا تھا کہ یہ حکومت سلیکٹڈ ہے، کسی کے کندھوں پر قائم ہے۔ انتخابات کے نتائج کے حوالہ سے کبھی بھی سیاسی جماعتوں میں متفقہ رائے نہیں رہی، ہر دفعہ انتخابات دھاندلی زدہ قرار دیئے گئے۔ ہمارے ہاں ان 76سال میں سیاسی جماعتیں جمہوری نہ بن سکیں۔ انہوں نے ان ایشوز پر سیاست کی ہے جن سے وقتی طور پر ذاتی مفادات کو تقویت ملتی رہی لیکن ملک معاشی طور پر کمزور ہوتا چلا گیا۔ اتنے سال گزرنے کے بعد آج بھی وہی طرز سیاست جاری ہے۔ چار چار بار خاندانی حکمرانی کے بعد بھی بدانتظامی اور معاشی مسائل اپنی جگہ کھڑے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ساڑھے آٹھ لاکھ نوجوان ملک سے باہر چلے گئے، اگر اسی طرح ڈرین آئوٹ ہوتا رہا تو ملک کیسے چلے گا؟ جب ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے شعبوں سے وابستہ ہنرمند لوگوں چھوڑ جائیں گے، جن کو دنیا اثاثہ سمجھتی ہے۔ دنیا ہنر مندوں کو اپنے ملکوں میں دعوت دے رہی ہے۔ ہمارے ہاں افراتفری ہے۔ سوال اٹھانے پر زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا لاکھوں ڈالر کی مراعات پیش کر رہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کو آزاد کرنے اور سیاست دانوں کو با اختیار کرنے کی باتیں چل رہی ہیں لیکن پیسے کی حرص والوں کو کیسے آزادی نصیب ہوگی۔ مولانا نے اسمبلی میں بلوچستان کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں کو با اختیار کریں۔ بلوچستان کا بڑا مسئلہ وہاں کے طاقتور حلقے ہیں، وہاں کے سیاست دان ہیں، جو وہاں کے مقامی افراد کے حقوق کی بات نہیں کرتے جو سرکاری فنڈز اپنے ذاتی مقاصد پر خرچ کرتے ہیں، بلوچستان چنانچہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے وہاں کا کلچرل دوسرے صوبوں سے مختلف اور مسائل بھی کافی گمبھیر ہیں۔ مقامی رہنما سرکاری حکم کی اثراندازی کو موثر نہیں ہونے دیتے۔ جب تک جمہوری رہنما سرکاری عمل داری کیلئے کام نہیں کریں گے اس وقت تک بلوچستان کے حالات پرامن نہیں رہ سکتے۔ بلوچستان کا حل وہاں کی مقامی حکومتوں اور وہاں کے وڈیروں کی توجہ پر منحصر ہے۔ آپریشن سے وقتی حل نکل جائیگا لیکن مقامی افراد کو جینے کیلئے دوسرے صوبوں جیسے وسائل درکار ہیں جن پر کوئی غور نہیں کیا جارہا ہے، وہاں کا مسئلہ روٹی روزگار، صحت اور تعلیم ہے ۔

جواب دیں

Back to top button