وادی استور میں ایک دن

یاسر دانیال صابری
ضلع استور گلگت بلتستان کے بہت خوبصورت اور دلکش علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنے قدرتی حُسن , روایات اور دیگر مشہور چیزوں سے مالامال ہے۔ ضلع استور سطح سمندر سے 2600میٹر بلندی پر واقع ہے جہاں کئی مشہور پہاڈ اور گلیشئر موجود ہے استور گلگت شہر سے 120کلومیٹر پر واقع ہے اس کا جنوب کی جانب چترال واقع ہے شمال کی جانب گلگت اور سکردو ہے جہاں چھوٹے بڑے تقریبا 90سے زائد گائوں پر مشتمل ضلع استور جس کی کل آبادی میکسیمم 120000افراد پر مشتمل ہے۔ شینا استور کی علاقائی زبان ہے مشہور سیاحتی علاقوں میں کالا پانی،منیمرگ چیلم، عیدگاہ، چونگراہ پریشنگ رامکھا اور تری شنگ قابل ذکر ہے۔ مشہور سیاحتی مقامات میں فیری میڈو دلکش مناظر سے بندوں کو پریشان کرتا ہے ناگاہ پربت اور رامہ ویلی بھی بہت خوبصورت ہے اور اس کے ساتھ جوڈی ایک خوبصورت جھیل، شنگری، روپل پیک، ضلع استور کی پہچان سمجھی جائی ہے۔۔۔۔ استورکے حسین وادیوں میں دیواسائی دنیا کی بلند ترین نیشنل پارک سمجھا جاتا ہے جہاں کئی یونک جانور ریچ وغیرہ پائے جاتے ہیں اس میں جنگلی حیات والوں کا بہت بڑے خدمات ہے ، منی مرگ ، کمری ، راٹو ، دریلے جھیل کالاپانی بنگلہ وادی ، تری شنگ ، روپل اور چورت چھوگام اللہ والی جھیل دشکین بھی قابل زکر ہیں۔استور کے لوگ انتہائی سادہ اور مہمان نواز ہیں جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ استور کی زبان یعنی( شینا )زبان گلگت ،استور ،چلاس،ہنزہ نگر،سکردوکے کچھ علاقوں ،کوہستان اور بھارت کے سرحدی علاقوں جن میں کارگل اور بڑی گورائی سمیت متعدد علاقوں میں بولی جا تی ہے، گلگت سے جاتے ہوئے اور سکردو سے نیشنل پارک دیوسائی کی طرف سے آتے ہوئے استور کا روڈ تنگ اور چڑائی کا کافی ہے اور ساتھ بجلی کے دو دو کھمبے ساتھ لگے ہوئے ہیں اور انکے اوپر بجلی کی تاریں درست طریقے سے بچھی ہوئی نہیں ہے یوں ہی روڈ کی طرف استور ودای میں نکل کر تھوڑا آگے چلے گئے تو وہاں شہید شہدا کے بوڈ روڈ کے
ساتھ لگا ہوا ہے اس سے گزرنا پڑھتا ہے اور ٹھنڈی ہوا کے جوکوں کا آنے شروع ہو جاتے ہیں روڈ میں چلتے ہوئے پہلے ایک پکی آر سی سی پل کراس کرنا پڑھتا ہے ۔ میں گلگت سے جاتے ہوئے کا منظر پیش کرتا ہوں اوپر دشکن کی آبادی واضع نظر آتی ہے وادی دشکن سے استوار 23کل میٹر کا فاصلہ ہے دشکن وادی کی آبادی ناہموار جگے میں ہے لیکن جنگل کافی ہے دشکن سے اوپر روڈ کا کوئی حالت نہیں اسی وادی استور سے سابق سی ایم گزرا ہے ۔مگر اس نے استور کو کچھ نہیں دیا سوائے زبانی باتوں سے ٹال مٹول کرتے رہے ۔ اور استور عید گاہ کی گرلز کالج کا حال بہت خراب ہے۔دشکن سے کچھ فاصلہ چلنے کے بعد ایک اور پل کراس کرنا پڑھتا ہے۔ پل کراس کرنے کے بعد روڈ سے نیچے تھوڑی آبادی نظر آتی ہے۔اسی سائیڈ ایک بجلی کا پاور ہائوس بنا ہوا ہے۔ اور اس کو کراس کرنے کے بعد کچھ منٹ میں چشمہ ہوٹل آتا ہے وہاں ہم نے ریسٹ کیا ۔دشکن روڈ سے آبادی نظر نہیں آتی لیکن اوپر بہت خوبصورت وادی ہے اور اسکے بعد ہرچو کے مقام میں پہنچنا ہوتا ہے۔اس وقت استور میں مقامی سبزی آلو کا سیزن چل رہا ہے ۔کافی لوگ آلو سے زیادہ پیسے کماتے ہیں۔ سال میں لوگ آلو کے ساتھ مکئی کی کاشت کرتے ہیں ۔استور کے لوگ کافی محنتی اور جفاکش ہے۔دشکن سے استوار کی طرف فائبر لائنوں میں روڈ کے ساتھ معذدور کام کر رہے تھے ۔اور ہرچو سے اوپر زک زیک کراس موڈ کچہ روڈ بنا ہوا ہے۔یوں ہرچو واٹر فال روڈ سے کراس کرنا ہوتا ہے ۔جہاں ثقافتی رویات زندہ ہیں ۔لوگوں نے چادر کے مکانات بنائے ہوئے ہیں ہرچو میں پھل
دار داخت بہت کم نظر آتے ہیں۔جہاں کے لوگ نسلی پھلدار درختوں سے ناواقف ہے۔ان کو نسلی کھیتی باڑی کا شعور نہیں ہے جہاں چری بہت کم سفیدے زیادہ نظر آتے ہیں۔ہرچو کے مقام میں لکڑی قریب ہے لوگ زیادہ تر چولہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔روڈ کے ساتھ دریا اچھا لگ رہا تھا۔جہاں کا پانی صاف اور میٹھا ہے ۔روڈ میں ایک جگہ دوسری آبادی تک پہچنے کے لئے لفٹ لگی ہوئی تھی۔ہم نے بلآخر ویلکم ٹو استور بوڈ بھی کراس کر گئے ۔ بجلی کے کھمبوں میں تاروں کا نظام درہم برہم تھا۔اور فارسٹ چیک پوسٹ بھی کراس کیا اب ہم پہنچنے والے ہیں استور زہرو پوئنٹ اس کے بعد ایک سرسبز دلکش آبادی کے بیچ سے گزرنا ہوتا ہے۔جہاں سنی اور شعیہ آبادی مکس ہے اور امن پسند لوگ ہے۔مین استور پتی پورہ میں پہنچ گئے۔جہاں کافی ہوٹلز اور پکے مکانات ہیں ۔اسکے بعد عیدگاہ کی بازار اور آبادی آتی ہے جہاں نے ہم نے پکانے کے لئے بکری کا گوشت لے گئے مگر دکاندار کا دام عروج پر تھی یعنی چیزے کافی مہنگی ہے۔جہاں لوگ کافی ترقی یافتہ ہے راما جھیل منفرد دلکش نظارے اور مختلف مناظر پیش کرتا ہے ۔بہت ہی خوبصورت جھیل ہے۔استور کا چلم وادی بھی نہایت خوبصورت ہے جہاں لوگ مال مویشیوں کے ساتھ تہذیبی اقدار اور ثقافتی روایات رکھتے ہیں ۔اسلامک روایات رکھتے ہیں ۔جہاں سے کئی افسر ملک کی خدمات میں مگن ہے۔ دیامر کا ضلع استور اپنے اندر ثقافتی روایات رکھتی ہے۔یہ وادی مختلف پہاڑوں کا مرکز ہیں ۔جہاں بہت سے باڈرز لگے ہوئے ہیں ۔جہاں بہت خوبصورت وادیاں اپنی مثال آپ ہے ۔جہاں پر ہر چیز کا منفرد ذائقہ ہے۔جہاں پر اپنے علاقے کے سیاست دان عوام کو بیوقوف بناتے ہیں ۔ترقیاتی کام بہت کم ہوئے ہیں ۔ جس میں میڈیکل کالج قابل ذکر ہے۔